حالیہ عام انتخابات میں منتخب ہونے والے تمام اراکینِ اسمبلی نے اپنے اپنے قائد ایوان کا انتخاب کر لیا ہے، چاروں صوبائی اسمبلیوں نے وزراء اعلیٰ جبکہ قومی اسمبلی نے وزیراعظم کا انتخاب مکمل کرلیا ہے، اب ان تمام اسمبلیوں اور سینیٹ پر مشتمل رائے دہندگان کو صدر مملکت کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، جو 9 مارچ کو ہوگا۔
اس صدارتی انتخاب میں 325 اراکین قومی اسمبلی، 91 سینیٹرز، پنجاب اسمبلی کے 354 اراکین، سندھ اسمبلی کے 157، خیبرپختونخوا اسمبلی کے 117 جبکہ بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔
مزید پڑھیں
صدارتی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے درمیان مقابلہ ہو گا، حکمراں اتحاد ن لیگ، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق، استحکام پاکستان پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی نے آصف زرداری کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔
سنی اتحاد کونسل، پاکستان تحریک انصاف، مجلس وحدت المسلمین نے محمود خان اچکزئی کی حمایت کا اعلان کیا ہوا ہے، ایم کیو ایم فی الحال آصف زرداری کو ووٹ دینے کے لیے رضامند نہیں ہے جبکہ جمیعت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل نے کس بھی صدارتی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
وی نیوز نے قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کہ کس صدارتی امیدوار کو کتنے ووٹ ملیں گے، ایم کیو ایم کی حمایت ملنے کے بعد آصف زرداری کو 431 ووٹ جبکہ محمود خان اچکزئی کو 188 ووٹ ملنے کا امکان ہے جبکہ 76 صدارتی ووٹ کاسٹ ہی نہیں ہوں گے۔
ن لیگ کے 114 ووٹ، پیپلز پارٹی کے 73، ق لیگ کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4، اور نیشنل پارٹی کا ایک ووٹ شمار کیا جائے تو صدارتی امیدوار آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی سےمجموعی طور پر 197 ووٹ ملنے کا امکان ہے، محمود خان اچکزئی کو سنی اتحاد کونسل اور آزاد امیدواروں کے 92 جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور بی این پی مینگل کے ایک ایک ووٹ سمیت مجموعی طور پر قومی اسمبلی سے 95 ووٹ ملنے کا امکان ہے۔
اب تک کی سیاسی پیش رفت کو مدنظر رکھا جائے تو اس صورتحال میں ایم کیو ایم کے 22 ووٹ، جمیعت علماء اسلام کے 11 اور مسلم لیگ ضیاء اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کا ایک ایک ووٹ کسی بھی امیدوار کے حق میں استعمال نہیں ہوگا۔
آصف زرداری کو سینیٹ سے ن لیگ کے 18 ووٹ، پیپلز پارٹی کے 18، بلوچستان عوامی پارٹی کے 9، نیشنل پارٹی کے 2، عوامی نیشنل پارٹی کے 2، ق لیگ کا ایک جبکہ 5 آزاد امیدواروں کے ووٹ ملا کر مجموعی طور پر 58 ووٹ ملنے کا امکان ہے، محمود خان اچکزئی کو پی ٹی آئی کے 25 ووٹ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ووٹ ملا کر کل 26 ووٹ ملنے کا امکان ہے، جبکہ جمیعت علماء اسلام کے 4 ووٹ اور جماعت اسلامی کا ایک ووٹ کسی امیدوار کو نہیں مل سکے گا۔
صوبائی اسمبلیوں کے 65، 65 ووٹ صدارتی انتخاب میں شمار کیے جاتے ہیں، پنجاب اسمبلی سے آصف زرداری کو 43 جبکہ محمد خان اچکزئی کو 19 ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ سندھ اسمبلی سے آصف زرداری کو 57، محمود خان اچکزئی کو 3 ووٹ ووٹ ملنے کا امکان ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی سے آصف زرداری کو 6 ووٹ، محمود خان اچکزئی کو 43 ووٹ جبکہ 4 ووٹ کسی بھی امیدوار کو نہ ملنے کا امکان ہے، بلوچستان اسمبلی سے آصف زرداری کو 48 ووٹ، محمود خان اچکزئی کو 2 ووٹ جبکہ 15 ووٹ کسی بھی امیدوار کو نہ ملنے کا امکان ہے۔
صدارتی انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے ہرایک سینیٹر، رکن قومی اسمبلی اوررکن صوبائی اسمبلی کو ایک ایک بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے، جس پر صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کے نام حروف تہجی کے لحاظ سے درج ہوتے ہیں جبکہ صدارتی انتخاب کے لیے انتخاب خفیہ رائے دہی کے تحت ہوتا ہے۔
ہر رکن اسمبلی اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام کے سامنے ٹک مارک کرتا ہے، اس کے بعد ہر بیلٹ پیپر پر پریزائیڈنگ آفیسر دستخط بھی کرتا ہے، صدارتی انتخاب کے نتیجے کا اعلان چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے کیا جاتا ہے، جسے الیکشن کمیشن اپنے نوٹیفکیشن کے ذریعے وفاقی حکومت کو بھی مطلع کرتا ہے۔
اس طریقہ کار کے تحت تمام آئینی اسمبلیوں اور ایوان بالا پر مشتمل الیکٹورل کالج سے منتخب ہونیوالے صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان سے اپنے عہدے کا حلف لے کر آئندہ 5 سال کے لیے صدر مملکت منتخب ہو جاتے ہیں۔