یہ 1984 کے موسم بہار کے دن تھے۔ سیان جیمز نامی برطانوی خاتون اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ ان کا شوہر کوئلے کی ایک کان میں مزدوری کرتا تھا۔ سیان کے بھائی، والد اور سسر، سب کے سب کان کن تھے۔
پھر اچانک پورے برطانیہ میں کان کنوں نے ہڑتال کردی۔ اس ہڑتال نے پورے برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ دراصل اس وقت کی برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی حکومت نجکاری کے عنوان سے کچھ ایسے اقدامات کرنے کی تیاری کر رہی تھیں جن کے نتیجے میں کم از کم 20 ہزار کان کن بے روزگار ہوجاتے۔ چنانچہ ان ممکنہ اقدامات کے خلاف ایک لاکھ 87 ہزار کان کنوں نے ہڑتال کی۔ واضح رہے کہ ان دنوں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 21 ہزار سے کچھ زائد تھی۔
برطانیہ کی خاتون آہن مارگریٹ تھیچر نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی بھی طور پر ان ہڑتالیوں کی پرواہ نہیں کریں گی چنانچہ ہڑتال کے دوران 11 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ 8 ہزار افراد کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ ہڑتالیوں کے خلاف بعینہ اسی طرح کریک ڈاؤن ہوئے، گویا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہورہی ہو اور سیکورٹی فورسز ’دشمن‘ کی کمر توڑنے کے لیے ہرلمحہ مصروف عمل ہوں۔
اس سے قبل 1972 اور 1974 میں بھی کان کنوں نے ہڑتالیں کی تھیں جس کے نتیجے میں پاور اسٹیشنز کو ایندھن نہ مل سکا تھا، اور پورے ملک میں بلیک آؤٹ ہوگیا تھا۔
ان دنوں کو یاد رکھتے ہوئے ’آئرن لیڈی‘ نے تہیہ کرلیا کہ وہ ان کان کنوں کے مقابل جیت کے ہی رہیں گی۔ ہڑتال ایک برس تک جاری رہی۔ یہ ایک سال ان سب کان کنوں بالخصوص ان کی خواتین کے لیے شدید مشکلات سے بھرا رہا۔ پھر ایک روز ان کان کنوں کے گھروں کی خواتین نے احتجاجی تحریک کا ہراول دستہ بننے کا فیصلہ کیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ خواتین برطانیہ کی آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر کے سامنے کھڑی ہوجائیں گی۔
ان خواتین نے ان ہڑتالی کان کنوں کے گھرانوں کے لیے خوراک جمع کی جن کے ہاں چولہے بجھ گئے تھے، مستحق گھرانوں میں خوراک کی تقسیم کا بہترین انداز میں انتظام کیا، ایسے گھرانوں کے لیے فنڈ ریزنگ بھی کی۔ صرف یہی نہیں، احتجاجی ریلیاں بھی منعقد کیں، اور ان ریلیوں میں پرجوش تقریریں بھی کیں۔ برطانیہ میں یہ پہلا موقع تھا کہ مرد سامعین تھے اور خواتین مقرر۔
چند ماہ بعد بعض کان کنوں نے نہایت مجبوری اور بے بسی کے عالم میں ہڑتال ختم کرنے اور کانوں میں جانے کا فیصلہ کیا تاہم خواتین نے ان کا راستہ روکا اور اس انداز میں روکا کہ ہر کوئی ششدر رہ گیا۔
پھر خواتینِ آہن کے مقابل ’آئرن لیڈی‘ مارگریٹ تھیچر کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ مارچ 1985 میں کان کنوں کی ہڑتال ختم ہوئی۔ تاہم خواتین نے انقلابی جدوجہد اور اس کی کامیابی کا مزہ چکھ لیا تھا۔ اس لیے انھوں نے جدوجہد ہی کو اپنا شعار بنا لیا اور نئے راستوں پر سفر کرنا شروع کردیا۔ اب وہ اپنے طبقات کے حقوق کے لیے سرگرم رہیں۔
سیان جیمز نے حصول تعلیم کا سلسلہ پھر سے جوڑ لیا اور تاریخ کے مضمون میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ پھر پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2005 سے 2015 تک وہ پارلیمان میں اپنے حلقے کی نمائندگی کرتی رہیں۔
ان انقلابی خواتین میں ایک میکائیلا ہاکنز بھی تھیں۔ وہ انیس سو چوراسی تک امور خانہ داری تک ہی محدود تھیں۔ خواتین ہڑتال کا ہراول دستہ بنیں تو میکائیلا بھی تحریک کی سرگرم کارکن بن گئیں۔ انھوں نے چندہ بھی جمع کیا اور انتہائی مجبور گھرانوں کے لیے خوراک کا انتظام بھی کیا۔
احتجاجی تحریک میں شرکت اور کامیابی سے خواتین کو اپنے اندر ایک نئی توانائی کا احساس ہوا کہ وہ بہت کچھ کرسکتی ہیں۔ یوں انھوں نے اپنے مردوں کو اپنی اہمیت کا بھرپور احساس دلا دیا۔
میکائیلا ہاکنز کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ہڑتال ختم کرنے کا فیصلہ کرنے والے کان کنوں کا راستہ روکنے کے جرم میں انھیں ہتھکڑیاں لگا کر حراست میں رکھا گیا۔
اس احتجاجی تحریک کے دوران خواتین نے ایک دلچسپ طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے کچھ کوڈ ورڈز طے کر لیے اور ان کی مدد سے ایک دوسرے کو ضروری پیغامات سے آگاہ کرتی رہیں۔ اب بے چارے پولیس والوں اور دیگر کی جانے بلا کہ وہ کیا بول رہی ہیں۔
اس ہڑتال میں خواتین کے اہم ترین کردار نے عورتوں سے متعلق مردوں کے انداز فکر اور رویے کو بدل دیا۔ ہڑتال کے دوران مردوں نے جو ذمہ داریاں عورتوں کو دیں، خواتین نے پوری کیں۔ ہڑتال ختم ہوئی، پھر عورتوں نے مردوں سے جو تقاضا کیا، وہ مردوں نے پورا کرکے دیا۔
این جونز بھی انہی خواتین میں سے ایک تھیں۔ اس ہڑتال سے پہلے وہ کبھی کسی مجمع کے سامنے کھڑے ہوکر تقریر تو دور کی بات، چند جملے نہ کہہ سکتی تھیں۔ لیکن اس ہڑتال کے دوران وہ نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ کے دیگر ممالک میں بھی گئیں، وہاں انھوں نے خوب پرجوش تقاریر کیں۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آغاز میں مرد اپنی خواتین کو اس ہڑتال کا حصہ بنانے سے ہچکچا رہے تھے لیکن ان خواتین نے ثابت کردیا کہ وہ بہت کچھ کرسکتی ہیں۔
این جونز اس قدر سرگرم عمل ہوئیں کہ وہ ایک طرف پولیس سے ہونے والی جھڑپوں میں لڑتی رہیں، دوسری طرف گرفتاری سے بچتے ہوئے تحریک کے اگلے مراحل سے متعلق پیغامات لے کر پورے برطانیہ میں گھومتی رہیں۔
نجکاری اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری کے خلاف یہ خواتین سرگرم عمل نہ ہوتیں تو کان کنوں کی یہ ہڑتال ایک سال تک طول نہ پکڑتی۔ اور جانے اس کا نتیجہ کیا ہوتا۔ اس کہانی میں پاکستانی حکمرانوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔
ہر حکمران سمجھتا ہے کہ اس کی تدبیر بہت محکم ہے۔ وہ جو چاہے، کرسکتا ہے۔ لیکن پھر وقت اسے بتاتا ہے کہ یہ اس کی بہت بڑی خوش فہمی تھی۔ جمہوریت کی بنیاد صرف اور صرف عوام کا مفاد ہے۔ ’مشکل فیصلوں‘ کے عنوان سے عوام دشمنی کی جائے گی تو پھر حکمرانوں کو خاک چاٹنا پڑ سکتی ہے۔