’میں نے شادی اپنی پسند سے کی ہے مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا اور میرے والد سوشل میڈیا پر آکر جھوٹ بول رہے ہیں کہ میں 13 برس کی ہوں جبکہ میری عمر 16 سال ہے‘۔
یہ الفاظ ہیں فلک نور کے جن کا تعلق گلگت کے نواحی علاقے سلطان آباد سے ہے اور وہ چھٹی جماعت کی طالبہ ہیں۔
فلک نور کے ’اغوا‘ کے ڈیڑھ ماہ بعد اچانک سوشل میڈیا پر ان کے والد کی طرف سے بیان آیا کہ ان کی 13 سالہ بیٹی کو کسی نے اس وقت اغوا کرلیا جب وہ ٹیوشن پڑھنے گئی ہوئی تھی اور اس کے بعد وہ واپس نہیں لوٹی۔
کچھ ہی دن بعد فلک نور کا بھی ویڈیو بیان آگیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ’مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا بلکہ میں خود اپنی مرضی سے گھر سے گئی ہوں اور میں نے اپنی پسند سے شادی کرلی ہے‘۔ فلک نور نے جس لڑکے سے شادی رچائی ہے وہ 17 سال کا ہے۔
محض فلک نور ہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں ہر سال ہی کم عمری کی شادی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے یونیسیف کی تکنیکی مدد سے گلگت بلتستان ملٹیپل انڈیکیٹر کلسٹر سروے (GB-MICS 2016-17) کیا جس میں کم عمری کی شادیوں کی شرح نمایاں طور پر زیادہ پائی گئی جو کہ 26 فیصد ہے۔
گلگت بلتستان میں 15 سال سے پہلے شادی کا تناسب 13.1 فیصد ہے اور 18 سال سے پہلے کی شادی کا تناسب گلگت بلتستان میں 43 فیصد ہے۔
یہ شرح ضلع استور میں 21 فیصد، دیامر 55 فیصد، گانچھے 45 فیصد، غذر 34 فیصد، گلگت 34، ہنزہ 20 فیصد کھرمنگ 49 فیصد، نگر34 فیصد، شگر 65 فیصد اور اسکردو میں 54 فیصد ہے۔
اسی طرح 15 سال سے 19 سال تک شادی کا تناسب 13 فیصد ہے۔ جس میں ڈسٹرک استور 6 فیصد، دیامر 23، گانچھے 17 فیصد، غذر 8 فیصد، گلگت 15 فیصد، ہنزہ ایک فیصد، کھرمنگ 11 فیصد، نگر 8 فیصد، شگر 16 فیصد اور اسکردو 8 فیصد ہے۔
دوسرے واقعے میں کچھ عرصہ قبل دیامر سے تعلق رکھنے والے 12 سالہ لڑکے کی شادی کی گئی اور سوشل میڈیا پر خوب داد وصول کی گئی۔
لڑکے نے کہا کہ ’میری ماں بیمار رہتی ہے گھر میں کوئی کام کرنے والا نہیں ہے اس لیے میں نے شادی کی ہے اور جب میں 20 سال کا ہوجاؤں گا تو دوسری شادی بھی کرلوں گا‘۔
فلک نور کے والد نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر یا انجینیئر بنانا چاہتا تھا مگر میری کم عمر بیٹی کا اغوا کرلیا گیا ہے میری بیٹی پڑھائی میں بھی بہت اچھی تھی اور کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتی تھی۔
سماجی رہنما اور جینڈر اسپیشلسٹ یاسمین کریم کا کہنا ہے کہ شادی خواہ زبردستی ہو یا باہمی رضامندی سے کم عمر بچوں کی شادی قانوناً جرم ہے اور اس جرم کو روکنے کے لیے کم عمری کے حوالے سے قانون پر عمل درامد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گلگت بلتستان کے لوگوں میں آگاہی پیدا ہو کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی کرنے والے نکاح خواں اور شادی میں شریک سب کو سزا اور جرمانہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے کو روکنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ اتنی کم عمری میں نہ ہی لڑکا ذہنی اور جسمانی طور پر میچور ہوتا ہے اور نہ ہی لڑکی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خصوصاً لڑکی جب میچور نہیں ہوگی اور خود ایک بچی ہوگی تو وہ کسی اور بچے کو جنم کیسے دے سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے بھی ایک لڑکی اس عمل سے گزرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتی جو بعد میں پیچدگیوں کا باعث بنتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کم عمری کی شادی اور زبردستی شادی کا ایکٹ بننے کے بعد 10سالوں میں 3 حکومتیں آئیں لیکن اس پر عمل درامد نہیں ہوسکا۔
ایڈوکیٹ احسان علی کا کہنا ہے کہ پولیس کی کارکردگی ایسے واقعات میں مایوس کن ہوتی ہے ڈیڑھ مہینے بعد بھی ایک بچی پولیس سے بازیاب نہیں ہوسکی تو ہم ایسی پولیس سے کیا امید رکھیں کہ وہ مجرموں کو سزا دے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے اور کل بھی ایک دلخراش واقعہ رونما ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ انارا نامی ایک لڑکی 20 دن سے لاپتا تھی اور کل اچانک دریا سے اس کی لاش برآمد ہوئی جس پر بھی تحقیقات ہونی چاہییں اور کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون کے تحت سزائیں دی جاتیں تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔
ڈاکٹر شیریں سلطان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی کا رجحان اس دور جدید میں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں جہاں تعلیم اور آگاہی کی کمی ہے وہاں سے مریض اور حاملہ خواتین مختلف پیچیدگیوں کے ساتھ اپنے علاقوں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے گلگت شہر کے اسپتالوں کا رخ کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کم عمر لڑکیاں جن میں 13 سے 15 سال اور زیادہ عمر کی خواتین بھی ابھی تک حاملہ ہورہی ہیں جس کی وجہ آگہی اور تعلیم کی کمی ہے۔
ہیومن رائٹس کے کوآرڈینٹر اسرار الدین اسرار کے مطابق گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں جنہیں روکنے کے لیے قانون سازی کی سنہ 2015 میں کوشش کی گئی، مسلم لیگ ن کے دور میں اسے متنازعہ بناکر روکا گیا لیکن نیشنل لا چائلڈ میرج ریسٹینٹ 1929 یہاں نافذ ہے اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ شرعی طور پر عمر کی پابندی نہیں لہٰذا عمر کی پابندی نہیں کی جائے گی اور اس پر جب تک قانون سازی نہیں کی جائے گی اور سختی سے عمل درآمد نہیں ہوگا اور اس حوالے سےآگاہی نہیں دی جائے گی یہ معاملہ رکنے والا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں کہیں اس طرح کا کیس ہو پولیس جاکر شادی کو روکے اور ان کے خلاف کارروائی کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں قانون کے مطابق 6 مہینے جیل اور والدین نکاح خواں اور شادی کرانے والوں کے خلاف ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر سعدیہ دانش کا کہنا ہے کہ 13 سالہ کم عمر فلک نور کی شادی غیر قانونی اور غیر شرعی ہے اور بہت جلد ملزمان عدالت میں ہونگے۔
سعدیہ دانش نے کہا کہ کم عمری کی شادی کے حوالے سے وفاقی قانون گلگت بلتستان میں لاگو کیا گیا ہے اور 13 سال کی بچی کی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ بچی کو جلد از جلد بازیاب کرکے والدین کے حوالے کردیا جائے گا۔
اسرار نے بتایا کہ قانون پر عمل درامد نہیں ہوتا ہمارے پاس کم عمری کی شادی کے کیسز بھی آتے ہیں اور اکثر کورٹ بھی جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کورٹ میں شرعی قانون اور لا میں تضاد کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں کو روکنے میں ناکامی ہو رہی ہے لہٰذا گلگت بلتستان حکومت کو قانون پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے وقت میں قانون بنے گا کیونکہ اس پر بھی کام ہورہا ہے حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی تو ایسے قانون عمل درآمد بھی کروایا جاسکتا ہے۔
یاسمین کریم نے بتایا کہ بچپن کی شادی ایک ثقافتی عمل سے ہٹ کر انسانی صحت اور ترقی کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شادی ذمہ داریوں کا نام ہے جس کے لیے ذہنی، جسمانی اور معاشی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر افراد میں کامیاب شادی کے لیے ضروری پختگی کی کمی ہوتی ہے جو ممکنہ طور پر ان کی صحت کو متاثر کر سکتی ہے لہٰذا ایسی شادیوں کو روکا جانا چاہیے اور فیڈرل قانون کا گلگت بلتستان میں اطلاق کرکے سخت سزائیں جرمانہ اور مجرموں کو گرفتار کیا جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔