وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پر متفق ہونا چاہیے کہ وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا نہیں ہونے دیں گے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 2018 میں جس طرح سے تبدیلی لائی گئی وہ سانحہ مشرقی پاکستان سے کم نہیں تھی۔
احسن اقبال نے کہاکہ 2018 میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت کی وجہ سے ہم نے 20 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کھو دی کیونکہ سی پیک پر کام نہ ہونے سے وجہ سے سرمایہ کار یہاں سے چلے گئے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہاکہ سی پیک کا پہلا فیز 2014 سے 2020 تک تھا جس میں ہم نے 2018 تک انفراسٹرکچر مکمل کرلیا تھا، اس کے بعد اکنامک زونز بننے تھے مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے مسلم لیگ ن کی مخالفت میں اس پر کام نہیں کیا جس کا نقصان ملک کو ہوا۔
وفاقی وزیر نے کہاکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ہر اُس منصوبے پر توجہ نہیں دی جو مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے 16 ماہ کی حکومت میں چین کا اعتماد بحال کر لیا ہے، اب ہم دوسرے فیز میں جا رہے ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں 5 کوریڈور شروع کیے جائیں گے۔
احسن اقبال نے کہاکہ چینی قیادت ہمارے اقدامات سے متاثر ہوئی ہے، ہم نے گوادر میں پانی کے منصوبے مکمل کیے ہیں، حالانکہ یہ سب کام 2020 تک ہونے چاہیے تھے۔
شہباز شریف جلد چین کا دورہ کریں گے
وفاقی وزیر نے کہاکہ وزیراعظم شہباز شریف کا جلد دورہ چین متوقع ہے اور میں بھی اس سے پہلے چین جاؤں گا۔
احسن اقبال نے کہاکہ ہم نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں ٹیکنیکل ماہرین دیے جائیں جو ہماری معاونت کریں کہ ہم برآمدات میں کیسے اضافہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پی آئی اے کی نجکاری پر تیزی سے کام ہو رہا ہے، ان تمام اداروں کی نجکاری ہونی چاہیے جو نقصان میں چل رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگی رہنما نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے، مگر وہ کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے جس سے ملک میں انارکی پھیلے۔
پاکستان اس وقت جلسے جلوسوں کا متحمل نہیں ہو سکتا
احسن اقبال نے کہاکہ پاکستان اس وقت جلسے جلوسوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے سب کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ہم نے یہ معاملہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔