سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی مشکوک خطوط موصول، پولیس حکام

بدھ 3 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران ججز کو موصول ہونے والے دھمکی آمیز خطوط کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ان خطوط کے حوالے سے پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی ایسے ہی خطوط موصول ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کو موصول دھمکی آمیز خطوط کے معاملے پر سماعت میں ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اور ایس ایس پی سی ٹی ڈی ہمایوں حمزہ عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک کسی کے پاس آئی جی کا ایکٹنگ چارج ںہیں، اسلام آباد پولیس کے تمام آپریشنز میں دیکھ رہا ہوں۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ کیمکل معائنے کے لیے بھجوا دیے ہیں، 3 سے 4 دن میں رپورٹ آ جائے گی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ خطوط کہاں سے پوسٹ کیے گئے تھے، جس پر ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ لفافوں پر لگی مہریں نہیں پڑھیں جارہیں۔ ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ آج لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی اسی نام سے خطوط ملے ہیں۔

’بظاہر راولپنڈی جی پی او لگ رہا ہے‘

 چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ڈی آئی جی سے کہا کہ آپ ابھی مہر کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، کیا تمام خطوط ایک ہی ڈاکخانہ سے آئے ہیں۔

ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ خطوط پر مہریں مدھم ہیں مگر راولپنڈی کی مہر پڑھی جاری ہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ آپ دونوں افسران نے خطوط کے لفافے دیکھے ہیں، جس پر ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے جواب دیا کہ بظاہر راولپنڈی جی پی او لگ رہا ہے۔

ایس ایس پی نے عدالت کو بتایا کہ خطوط جی پی او میں پوسٹ نہیں ہوئے بلکہ انہیں کسی لیٹر باکس میں ڈالا گیا ہے۔ ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے بتایا کہ ہم اس لیٹر باکس کی سی سی ٹی وی اور ایریا کی معلومات لے رہے ہیں، اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔

پولیس افسران نے عدالت کو مزید بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مقدمہ درج کیا، اب تک کی پیشرفت کیا ہے۔

’مہریں میرے سیکریٹری نے پڑھ لیں، آپ کیوں نہ پڑھ سکے‘

ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے سیمپل لیبارٹری بھجوا دیے ہیں اور ڈائریکٹر سے ان کی بات بھی ہو گئی ہے۔ ڈی آئی جی نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی ایسے ہی خطوط ملے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کچھ پتہ چل سکا ہے کہ وہ خطوط کہاں سے آئے۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ خط پر مہر ٹھیک طرح سے پڑھی نہیں جا سکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’میرے سیکریٹری نے پڑھ لیا ہے آپ کیوں نہیں پڑھ سکے؟‘

’ریشمہ تو ججز کے لیے کوئی خاص چیز ہوگئی‘

ایڈووکیٹ جنرل نے بھی عدالت کو بتایا کہ اسی نوعیت کے خطوط لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھیجے گئے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ریشمہ تو پھر ججز کے لیے کوئی خاص چیز ہو گئی ہے، ریشمہ کون ہے، کیا اس کا تعلق بارڈر پار سے ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد پولیس ابھی 24 گھنٹے تک کچھ بھی نہیں کرسکی، آپ کا اسٹاف ابھی تک صرف ناکوں پر کھڑے ہونے اور لوگوں کو تنگ کرنے کا عادی ہے، لوگوں کے منہ سونگھنے چھوڑ دیں اس سے آپ کو کچھ نہیں ملے گا، 24 گھنٹے گزر گئے اور ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ لیٹر پوسٹ کہاں سے ہوئے۔

ایڈووکیٹ جنرل بولے، ’اللہ مدد کرے گا‘، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے اللہ نے سب کی مدد کرنی ہے، ہم نے خود کچھ نہیں کرنا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp