امریکی صدر جوبائیڈن کی دعوت افطار پر آئے ایک فلسطینی ڈاکٹر نے امریکی صدر کو سب کے سامنے کھری کھری سنا دی اور احتجاجاً دعوت چھوڑ کر چلے گئے۔
مزید پڑھیں
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے ایک پروگرام میں فلسطینی نژاد ڈاکٹر طاہر احمد نے اس ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ صدر بائیڈن نے امریکی مسلم کمیونٹی کے اعزاز میں سالانہ افطار اور عشاییے کا اہتمام کیا تھا جس میں وہ بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر طاہر احمد کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کے اس کمرے میں خاتون اول جل بائیڈن اور نائب امریکی صدر کاملا ہیرس بھی موجود تھیں، جب امریکی صدر آئے تو انہوں نے سب سے مصافحہ کیا اور کہا کہ وہ زمینی حقائق سے واقف ہیں مگر آج وہ صرف ہماری بات سنیں گے۔
ڈاکٹر طاہر احمد نے بتایا کہ صدر بائیڈن نے غزہ، فلسطین یا ورلڈ سینٹرل کچن، شہید ہونے والے ہزاروں افراد، بھوک اور خصوصاً رفح میں اسرائیلی آپریشن سے متعلق کوئی بات نہیں کی، جس کے حوالے سے ہم سبھی کو تشویش ہے۔
انہوں نے مزید بتایا، ’صدر بائیڈن نے سب سے پہلے میری طرف دیکھا اور بولے کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک فلسطینی ڈاکٹر ہوں جو جنوری تک غزہ اور خان یونس میں رہا اور جس نے ناصر اسپتال میں کام کیا، جہاں میں نے تباہی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔‘
ڈاکٹر طاہر نے کہا کہ انہوں نے صدر بائیڈن کو بتایا کہ ہم اس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو پچھلے 6 ماہ سے غم میں مبتلا ہے اور بائیڈن انتظامیہ اور وائٹ ہاؤس کے بیانیے سے تمام مسلمانوں خصوصاً فلسطینی نژاد امریکیوں کو شدید تکلیف پہنچی ہے۔
انہوں نے بائیڈن سے کہا کہ جو کچھ اس تناظر میں کیا گیا ہم اس سے بالکل بھی مطمئن نہیں، غزہ میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے مگر یاد رکھیں ہمیں غزہ اور فلسطین میں موجود لوگوں کے تحفظ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں جنہیں صرف بھوک کا ہی نہیں بلکہ رفح میں اسرائیلی آپریشن کا بھی سامنا ہے۔
ڈاکٹر طاہر نے کہا کہ انہوں نے اپنی کمیونٹی اور اس جنگ میں شہید ہونے والے اور متاثرہ افراد کی خاطر اس ملاقات کا اس لیے واک آؤٹ کیا تاکہ فیصلہ سازوں کو بھی پتہ چلے جب کوئی اپنی بات سناکر ردعمل سنے بغیر کہیں سے چلا جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر کا کہنا تھا، ’جب میں نے اپنی بات ختم کی اور وہاں سے جانے لگا تو صدر بائیڈن نے کہا میں سمجھ سکتا ہوں۔‘ انہوں نے کہا کہ اسی رویے کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔