20 برس قبل شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور رومانیہ کے قومی شاعر میہائی ایمینیسکو (Mihai Eminescu) کی مشترکہ یادگار کا سنگِ بنیاد 15 جنوری 2004 کو پاکستان میں رومانیہ کے سفیر پروفیسر ڈاکٹر ایمل گیتلیسکو (Prof. Dr. Emil Ghitulescu) نے رکھا تھا اور اس کا افتتاح 29 اپریل 2004 کو ہوا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان 1964 سے بلا تعطل دوطرفہ تعلقات قائم ہیں اور 2004 میں ہی پاکستان اور رومانیہ کے درمیان سفارتی تعلقات کی 40 ویں سالگرہ منائی گئی تھی۔
15 جنوری کو رومانیہ اپنا قومی ثقافتی دن مناتا ہے۔ 7 دسمبر 2010 کو حکومتی منظوری کے بعد قومی ثقافتی دن پہلی بار 2011 میں منایا گیا تھا۔ 15 جنوری کا دن رومانیہ کے قومی شاعر میہائی ایمینیسکو کی سالگرہ کی مناسبت سے منتخب کیا گیا تھا۔ وہ 15 جنوری 1850 کو بوتوشانی (Botoșani) میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 15 جون 1889 کو دارالحکومت بخارسٹ (Bucharest) میں محض 39 برس کی عمر میں وفات پائی تھی۔
مزید پڑھیں
میہائی کی شاعری کے 60 سے زائد زبانوں میں تراجم
میہائی ایمینیسکو کی شاعری کے دنیا بھر کی 60 سے زائد زبانوں میں تراجم کیے جا چکے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں رومانیہ کے سب سے مشہور ثقافتی سفیر ہیں۔ ان کی پہچان صحافی، مصنف اور شاعر کی ہے۔ اسلام آباد میں قائم یادگار اس بات کی امین ہے کہ رومانیہ اور پاکستان جغرافیائی حقائق سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔
لامتناہی کالم (The Endless Column) یادگار سے غائب ہے
یادگار پاکستان اور رومانیہ کے باہمی تعلقات کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کے مابین مکالمے کی یاد بھی دلاتی ہے جو 2 عظیم شعرا کی وراثت کی عکاس ہے۔ یادگار دونوں ممالک کے فنِ تعمیر کے امتزاج کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس میں کانسی کا بنا ہوا رومانیہ کا تاریخی لامتناہی کالم (The Endless Column) بھی شامل تھا جو اب یادگار سے غائب ہے، شاید اسے چُرا لیا گیا ہے۔ جو رومانیہ کے عالمی شہرت یافتہ مجسمہ ساز کانسٹینٹن برانکوسی (1876-1957) کے شاہکار لامتناہی کالم (The Endless Column) سے اخذ کیا گیا تھا۔
لامتناہی کالم پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمن فوج کے خلاف رومانیہ کے شہر تیرگو ژیو (Târgu Jiu) کا دفاع کرنے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیےبنایا گیا تھا۔ یہ جست (زنک) سے بنا 98 فٹ اونچا (30 میٹر) ستون ہے جس کے لوہے سے بنے بیضوی ابھار پیتل سے ڈھکے ہوئے ہیں، جنہیں سٹیل کے پینل پر ایستادہ کیا گیا ہے۔ یہ 3 یادگاروں پر مشتمل مجموعے کا حصہ ہے جس میں ’گیٹ آف دی کِس‘ اور ’ٹیبل آف سائلینس‘ نامی 2 یادگاریں بھی شامل ہیں۔
اسلام آباد میں اپنی نوعیت کی پہلی شخصی یادگار
20 فٹ بلند یادگار دارالحکومت اسلام آباد میں اپنی نوعیت کی پہلی شخصی یادگار ہے۔ جسے چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری کے تعاون سے معروف مصور اور آرٹسٹ جمال شاہ اور ان کی ٹیم کے زیرِ نگرانی کنکریٹ، کانسی، گرینائٹ اور سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا تھا۔ سنگ مرمر سے بنی کھلی کتاب کے دو صفحات پر کانسی سے اقبال اور ایمینیسکو کی ابھری ہوئی شبیہ بنائی گئی ہے۔
رومانیہ کے سفیر کی ثقافتی تعلقات کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات
رومانیہ کے سفیر پروفیسر ڈاکٹر ایمل 2003 سے 2005 تک پاکستان میں تعینات رہے۔ انہیں سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے پر یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 2 عظیم شاعروں میں مماثلت تلاش کی جو پاکستان اور رومانیہ کے قومی شاعر ہیں۔
وہ اقبال کی شاعری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کے عقیدت مند مداح بن گئے۔ پاکستان میں لوگ ایمینیسکو کے کام سے واقف نہیں تھے جیسے رومانیہ کے لوگ اقبال سے نا آشنا تھے۔ لیکن رومانیہ کے سفیر نے ان عظیم شاعروں کا تقابلی مطالعہ کرکے 2 تہذیبوں کے درمیان مکالمے کا آغاز کیا اور اپنی 2 کتابوں کے ذریعے عملی جامہ بھی پہنایا۔
رومانیہ کے سفارت کار نے جو مشابہت دریافت کی، اس میں مختلف نسلوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے شاعر جو ایک دوسرے سے بہت دور تھے لیکن ان کا مشترکہ پیغام آج اتنا اہم ہے، جب انسانیت کو بہت سارے اختلافات اور تضادات کا سامنا ہے۔
یادگار کے افتتاح کے موقع پر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی نمائندگی ان کے پوتے ولید اقبال نے کی جبکہ میہائی ایمینیسکو کی نمائندگی پاکستان میں رومانیہ کے سفیر پروفیسر ڈاکٹر ایمل نے کی تھی جو خود بھی شاعر اور مصنف ہیں، انہوں نے پاکستان میں تعیناتی کے دوران درج ذیل 3 کتابیں بھی تصنیف کیں۔
01: Iqbal–Eminescu: A Dialogue Between Civilizations, Universal Values of Romania & Pakistan.
اقبال – ایمینسکو: تہذیبوں کے درمیان ایک مکالمہ، رومانیہ اور پاکستان کی عالمگیر اقدار
02: Allama Iqbal & Mihai Eminescu, A Surprising Resemblance.
علامہ اقبال اور میہائی ایمینسکو: ایک حیرت انگیز مشابہت اور پاکستان
03: Pakistan–Romania: A Cultural Dialogue.
رومانیہ: ایک ثقافتی مکالمہ
یادگارِ اقبال کا یادگاری ٹکٹ
پاکستان پوسٹ نے یادگار کا ایک برس مکمل ہونے پر 15 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے۔ ٹکٹوں کی فی عدد قیمت 5 روپے ہے جن پر دونوں شاعروں کی تصاویر کے ساتھ پاکستان اور رومانیہ کے جھنڈے بھی ہیں۔
ایک ٹکٹ پر رومانیہ کے سفیر پروفیسر ڈاکٹر ایمل اور ان کی کتاب کا نام بھی درج ہے۔ ڈاک ٹکٹ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے ڈیزائنر عادل صلاح الدین اور رومانیہ کے سفیر نے ڈیزائن کیے تھے۔
دونوں شاعر کرنسی نوٹوں پر شائع ہوئے
علامہ محمد اقبال اور میہائی ایمینیسکو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ دونوں قومی شاعروں کے عکس اپنے اپنے ملک کے کرنسی نوٹوں پر بھی شائع ہوئے اور شاید یہ دنیا کے منفرد شاعر ہیں جنہیں یہ اعزاز نصیب ہوا۔
حکومتی سرپرستی میں نہ صرف دونوں شعرا کے مزار تعمیر کیے گئے ہیں بلکہ ان کے مجسمے بھی ان کے آبائی شہروں میں نصب کیے گئے ہیں۔
یادگارِ اقبال توجہ کی طالب ہے
یادگارِ اقبال مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ ’لامتناہی کالم‘ بھی غائب ہے، شاید چُرا لیا گیا ہے۔ وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے) جانے اس غفلت سے آگاہ ہے بھی کہ نہیں؟ آج اقبال کا 86واں یوم وفات (21 اپریل 1938) ہے، یاد آیا کہ اقبال نے کہا تھا:
اقبالؔ بھی اقبالؔ سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے