امریکا نے خبردار کیا کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والے ممالک کو ’پابندیوں کے ممکنہ خطرے‘ کا سامنا ہے، امریکی انتباہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے 3 روزہ دورہ پاکستان کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون اور باہمی تجارت کو 10 بلین ڈالر تک بڑھانے کے لیے مفاہمت کی 8 یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔
مزید پڑھیں
ایرانی صدر گزشتہ پیر کو اسلام آباد پہنچے جب دونوں پڑوسی ممالک اس سال کے آغاز میں ایک دوسرے کیخلاف غیر معمولی فوجی حملوں کے بعد تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے، اس دوسرے سے ایک ہفتہ قبل ایران کی جانب سے اسرائیل پر فضائی حملے شروع کیے جانے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی برقرار ہے۔
پاکستان میں ایرانی صدر کی مفاہمت ناموں پر دستخط کے بارے میں پوچھے جانے پر، امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایک مختصر جواب میں ممکنہ پابندیوں کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے کسی بھی شخص کو امریکی پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے باخبر رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
USA is very clearly showing 🇵🇰 its card, but we adopted a confused foreign policy towards him, once in their camp, later adopted the policy of neutrality towards big powers, now again trying to appease USA. His message on missile program and Iranian president visit is very… pic.twitter.com/2udKDHRgro
— Barister Sidra Qayyum (@Shr_9998) April 23, 2024
’صرف مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والے کسی بھی شخص کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے باخبر رہنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن بالآخر، حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے حصول کے لیے بات کرسکتی ہے۔‘
امریکی انتظامیہ کی جانب سے 3 چینی اور بیلاروس میں مقیم ایک ادارے کے خلاف گزشتہ ہفتے پاکستان کو میزائل کے پرزے فراہم کرنے پر امریکی پابندیوں کے ضمن میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور ان کی خریداری کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا۔
نائب ترجمان ویدانت پٹیل کے مطابق پابندیاں اس لیے لگائی گئی ہیں کہ بیلاروس اور چین میں قائم کردہ یہ کمپنیاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع تھیں، ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات اور دیگر قابل اطلاق اشیاء کی فراہمی کا مشاہدہ کیا تھا۔