خدا خدا کرکے بلوچستان میں 48 روز کی تاخیر کے بعد کابینہ کا قیام عمل میں آیا تو وزارتوں اور دیگر عہدوں کی تقسیم پر اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگ گئیں۔
یوں تو حکومتی اتحاد میں 3 سیاسی جماعتیں شامل ہیں جن کو طے کردہ فارمولے کے تحت وزارتیں اور مشیروں کے عہدے تفویض کردیے گئے ہیں لیکن معاملہ یہاں حل نہیں ہوسکا۔ صوبے میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن ان دنوں اختلافات کا شکار ہے۔
مزید پڑھیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی زرک مندوخیل جماعت میں اتفاق اور بھائی چارے کا راگ تو الاپ رہے تھے لیکن پس پردہ کہانی کچھ اور ہے۔
ذرائع کے مطابق کابینہ کی تشکیل سے قبل مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کے درمیان رسا کشی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، ہر منتخب ایم پی اے کی یہ خواہش تھی کہ وزارت یا مشیر کا کوئی عہدہ مل جائے تاہم طے شدہ فارمولے کے تحت مسلم لیگ ن کو 6 وزراتیں اور مشیر کے 2 عہدے ملے۔
پارٹی میں اختلافات نے تب جنم لیا جب مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین اور ایک غیر منتخب رہنما کو ن لیگ کی جانب سے نوازا گیا، اس معاملے پر پارٹی کے منتخب رہنماؤں نے صوبائی صدر سے رابطے کیے جس پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، یوں پارٹی صدر اور ن لیگ کے اراکین اسمبلی میں اختلافات پیدا ہوئے جس پر ان رہنماؤں نے مسلم لیگ ن کی سینیئر قیادت سے بھی رابطے کیے۔
مسلم لیگی ارکان کا پارٹی صدر کے خلاف احتجاج کا ارادہ
ذرائع کا بتانا ہے کہ مسلم لیگ نواز سے چند ارکان اسمبلی پارٹی صدر کے خلاف احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں پارٹی صدر کا بطور گورنر منتخب ہونے کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ پنجاب میں تو مسلم لیگ ن ایک نظریاتی جماعت ہے لیکن بلوچستان میں مسلم لیگ ن کا قیام نظریے نہیں بلکہ مفاد کی بنیاد پر قائم ہے، ایسے میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ایوان میں آنے والوں کا مقصد بھی عہدوں کا حصول ہے۔ ’گزشتہ برس جب مسلم لیگ ن کی جانب سے ایک نجی ہوٹل میں سیاستدانوں کو جوق در جوق پارٹی میں شامل کیا گیا تھا تب ہی یہ بات واضح تھی کہ مستقبل میں انتخابات میں کامیاب ہونے والے یہ لوگ ایوان میں مسلم لیگ ن سے عہدوں کا مطالبہ کریں گے‘۔
’مرکزی قیادت نے معاملات حل نہ کرائے تو مخلوط حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘
سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ ن میں اس وقت اختلافات موجود ہیں، اگر مرکز میں موجود قیادت نے اس معاملے کو جلد حل نہ کیا تو پارٹی صوبے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتی ہے جس سے مخلوط حکومت کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔