ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ رہنے کے لیے چھت، اپنی سواری اور کوئی چھوٹا موٹا کاروبار ضرور بن جائے تاکہ وہ اپنی زندگی بہترین طریقے سے گزار سکے۔
کاروبار شروع کرنے کے لیے کچھ لوگ بینک سے قرض لینا بھی مناسب سمجھتے ہیں لیکن بعض افراد پہلے ہی گھبرا جاتے ہیں کہ کہیں انہیں بینک کو دگنے پیسے واپس نہ کرنے پڑ جائیں۔
مزید پڑھیں
قرض لینے کے لیے کچھ لوگ کنونشنل بینکنگ تو کچھ افراد اسلامک بینکنگ کو چنتے ہیں۔ اگر اسلامی بینکاری کی بات کی جائے تو زیادہ تر افراد کے ذہنوں میں یہی ہوتا ہے کہ شاید یہ نظام ’انٹرسٹ فری‘ ہوگا، لیکن کیا واقعی اسلامی بینکاری ’انٹرسٹ فری‘ ہوتی ہے؟ دوسری جانب آخر اسلامی بینکاری سے کنزیومر کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟، وی نیوز نے ان سب سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
اسلامک بینکنگ اور کنونشنل بینکنگ میں کیا فرق ہے؟
اسکول آف اکنامکس قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر انور شاہ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ اسلامک بینکنگ اور عام کنونشنل بینکنگ میں اصل فرق یہ ہوتا ہے کہ کنونشنل بینکنگ کا اصل کنٹریکٹ قرض کا ہوتا ہے جبکہ اسلامک بینکنگ اس سے مختلف ہے۔
انہوں نے کہاکہ کنونشنل بینکوں کا ایک ہی کنٹریکٹ ہوتا ہے کہ مثلاً ایک شہری اگر ایک لاکھ روپے قرض لیتا ہے تو بینک اس سے معاہدے کے مطابق منافع وصول کرےگا۔ ’بینک کہے گا کہ آپ نے لاکھ روپے قرض لیا ہے تو ہمیں اس پر 20 ہزار روپے دینے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی فرمایا کہ رباح حرام ہے جبکہ بے حلال ہے‘۔
پروفیسر ڈاکٹر انور شاہ نے بتایا کہ اسلامک بینکنگ کا اصل کاروبار ٹریڈ بیس ہوتا ہے جبکہ پارٹنرشپ کی بنیاد پر کام کم ہوتا ہے۔ ’سب سے زیادہ عام جز ’بے مرابا‘ ہے جس میں یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز کی قیمت ایک لاکھ ہوتی ہے اور آپ کہتے ہیں کہ یہ میں آپ کو ایک لاکھ 20 ہزار میں فروخت کروں گا، کیا آپ خریدیں گے، میں آپ کو اصل قیمت اور اس پر اپنا نفع دونوں آپ کے سامنے رکھوں گا اگر آپ رضامند ہوگئے تو ڈیل ہو جائے گی‘۔
اسلامی بینکاری سے کنزیومر کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اسلامی بینکاری سود سے پاک ہے، اگر مالیاتی فوائد کی بات کی جائے تو روایتی بینکاری سے عوام کو زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے لیکن پھر وہ سود سے پاک نہیں ہوتا۔
کنونشنل بینکنگ میں سب کچھ رقم کے ارد گرد ہی ہورہا ہوتا ہے، رانا عمیر
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے بڑے بینکوں میں شمار ہونے والے ایک بینک کے اعلیٰ عہدیدار رانا عمیر نے اسلامک بینکنگ اور کنونشنل بینکنگ کا فرق بتاتے ہوئے کہاکہ اسلامک بینکنگ میں اثاثہ شامل ہوتا ہے جبکہ کنونشنل بینکنگ میں سارا معاملہ رقم کے ارد گرد ہی ہورہا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسلامک بینکنگ میں جب گاڑی دی جاتی ہے تو گاڑی کا رینٹ وصول کیا جاتا ہے، اور کراچی انٹر بینک آفر ریٹ (کیبور) فکس بھی نہیں ہوتا، اگر ریٹ کم ہو جائے تو گاہک کو اس کا فائدہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ کنونشنل بینکنگ میں ریٹ فکس کردیا جاتا ہے۔ ’مثال کے طور پر جو لوگ اسلامک بینکنگ سے قرض لیتے ہیں تو جب ’کیبور‘ کم ہوتا ہے تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن جب زیادہ ہو جائے تو نقصان بھی ہوتا ہے۔ جیسے 3 سال قبل جن لوگوں نے کنونشنل بینکوں سے گاڑی بینک سے لیز کرائی ان کو فائدہ ہوا ہوگا کیونکہ ریٹ فکس رہا، جبکہ اسلامک بینکنگ والوں کو بہت زیادہ قسط دینا پڑی ہوگی، ہر سال قسط میں 4 سے 5 فیصد اضافہ ہوتا رہا ہے‘۔
دنیا بھر میں اسلامک فنانسنگ کے رجحان میں اضافہ
واضح رہے کہ دنیا بھر میں اسلامک فنانسنگ کا رجحان کافی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس بات کا اندازہ ایف ڈی اے کی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں اسلامی بینکاری اور مالیات کے 1679 ادارے کام کر رہے ہیں جن میں سے 560 اسلامی بینک ہیں۔
اس وقت اسلامی مالیاتی مارکیٹ کا حجم 4 ٹریلین ڈالر ہے اور اس میں سالانہ بنیادوں پر 17 فیصد کی شرح سے نمو ہورہی ہے۔ 2026 تک اسلامی مالیاتی مارکیٹ کا حجم 5.9 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کا اندازہ ہے۔ ’ملائیشیا، سعودی عرب، سنگاپور اور اردن اس وقت اسلامی مالیات اور بینکاری کے حوالے سے کافی آگے بڑھ چکے ہیں‘۔