آئی ایم ایف نے حکومت کو تنخواہ دار طبقہ سے مزید ٹیکس وصولی کا کہہ دیا

بدھ 8 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ  وہ زیادہ سے زیادہ قابل ٹیکس آمدنی کی حد کو کم کرکے تنخواہ دار طبقے اور کاروباری افراد کے لیے آمدن پر ایک ہی ٹیکس کی حد کا اطلاق کرے۔

مزید پڑھیں

روزنامہ ’ایکسپریس ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وقت کاروباری افراد سے 3 لاکھ 33 ہزار روپے ماہانہ آمدنی پر 35 فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ تنخواہ دار افراد کی سب سے زیادہ ٹیکس کی شرح 5 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ سے شروع ہوتی ہے۔

آئی ایم ایف نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ موجودہ انکم ٹیکس چھوٹ کی حد کو مزید نرم کرنے کے بجائے 50 ہزار روپے ماہانہ آمدنی پر برقرار رکھا جائے۔ ایسا کرنے سے 51 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک ماہانہ آمدن والے مڈل انکم طبقے پر منفی اثر پڑے گا حالانکہ ان کی قوت خرید میں مسلسل کمی آرہی ہے۔

آئی ایم ایف نے آئندہ بجٹ کے حوالے سے حکومت پاکستان کو پیش کردہ اپنی سفارشات میں ٹیچرز اور ریسرچرز کے خصوصی طور پر دستیاب تمام انکم کریڈٹس اور الاؤنسز واپس لینے کا کہا ہے۔ آئی ایم ایف تعلیمی اخراجات کے الاؤنس اور ورکرز ویلفیئر فنڈ سے متعلقہ ٹیکس کریڈٹس کا خاتمہ بھی چاہتا ہے۔

تنخواہ دار اور کاروباری افراد سے کتنا انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا؟

آئی ایم ایف کی ان سفارشات کا مقصد تنخواہ دار اور کاروباری افراد سے ٹیکس کی مد میں 650 ارب روپے حاصل کرنا ہے تاہم اس اگر حکومت نے آئی ایم ایف کی اس شرط کو مان لیا تو مذکورہ طبقات کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ روز کہا تھا کہ پاکستان کے نئے اور طویل مدتی پروگرام کے حوالے مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف وفد آئندہ 7 سے 10 روز میں پاکستان آئے گا۔

تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکام آئی ایم ایف کے ساتھ پراعتماد ہوکر ملیں کیونکہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عملدرآمد عوام خصوصاً تنخواہ دار طبقے کے لیے ہی نہیں بلکہ حکومت کے لیے بھی بڑی پریشانی کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے ریٹیلرز کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔

ٹیکس سلیبز کی تعداد میں کمی سے کیا ہوگا؟

رپورٹ میں حکومتی ذرائع کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد کی تفریق ختم کرکے تمام افراد کے لیے ٹیکس کی شرح کو معقول بنائے۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس سلیبز کی تعداد میں کمی کی تجویز دی ہے اور کہا ہے کہ سلیبز کی تعداد 4 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے ناقابل ٹیکس آمدنی کی حد 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 83 ہزار روپے ماہانہ کرنے پر غور کیا جارہا تھا۔ اگر حکومت تنخوا دار افراد کے ٹیکس سلیبس میں سے ایک سلیب ختم کردے اور قابل ٹیکس آمدنی کی حد 35 فیصد کی شرح سے 3 لاکھ 33 ہزار روپے کردے تو اس سے مڈل اور اپر مڈل گھرانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔

آئی ایم ایف تجاویز کے مطابق، 35 فیصد شرح کے حساب سے 2 لاکھ 17 ہزار روپے ٹیکس کی ادائیگی کرنا ہوگی اور تنخواہ دار افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ قابل ٹیکس آمدن کی سلیب 2 لاکھ 17 ہزار روپے سے کم ہوگی۔ اس سے پہلے 10 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر 35 فیصد کی سب سے زیادہ شرح لی جاتی تھی جسے آئی ایم ایف کی شرط پر آدھا کر دیا گیا تھا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف نے انکم ٹیکس آرڈیننس کے دوسرے شیڈول کے مطابق پاکستان سے انکم ٹیکس پر دی گئی استثنا پر غور کرنے کا کہا ہے۔ اس استثنا میں عدلیہ اور فوج کو دی جانے والی رعایت بھی شامل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp