کیا خسارے میں چلنے والے اداروں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بہتر کیا جا سکتا ہے؟

ہفتہ 11 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے بجائے انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی ) کے ذریعے بہتر کیا جائے۔

مزید پڑھیں

پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما شیری رحمٰن بھی اس سے قبل کہہ چکی ہیں کہ پی آئی اے جیسے اداروں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ٹھیک کیا جا سکتا ٓہے۔

 پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی تجویز کے برعکس ‎پاکستان کے وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ کم از کم 15-20 خسارے میں چلنے والے عوامی اداروں کو فوری طور پر نجکاری کے لیے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

سرکاری تجارتی اداروں کو 1.395 ٹریلین روپے کا نقصان ہوا

‎وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مالی سال 2021 اور 2022 کے دوران ملک کے سرکاری تجارتی اداروں کو 1.395 ٹریلین روپے کا نقصان ہوا  اور یہ خسارہ پبلک سیکٹر ڈویلپمینٹ پروگرام کے حجم سے دوگنا ہے۔

جبکہ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں پاکستان کی ’ایس او ای ایس‘کی کارکردگی کو  جنوبی ایشیا میں بدترین قرار دیا گیا ہے، اس رپورٹ کے مطابق ان پاکستانی ’ایس او ای ایس‘کے مشترکہ نقصانات ان کے اثاثوں کی نسبت تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں۔

ورلڈ بینک کی اس رپورٹ کے مطابق حکومت ٹیکس دہندگان کی 458 ارب روپے سے زیادہ رقم ان اداروں کو رواں رکھنے کے لیے خرچ کرتی ہے، ان کے مشترکہ قرضے اور ضمانتیں 2016 میں جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے بڑھ کر 2021 میں جی ڈی پی کے تقریباً 10 فیصد تک پہنچ گئیں۔

‎پچھلے بیل آؤٹ پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت ایک بار پھر سے ایک طویل مدتی معاہدہ کے لیے  آئی ایم ایف کے در پر ہے۔

پبلک پراییویٹ پارٹنر شپ کی تجویزکتنی مؤثر

اور ایسے وقت میں حکومتی اتحادیوں میں سے سب سے بڑے اتحادی کی جانب سے نجکاری پر تحفظات کا اظہار کیا جانا اور پھر پبلک پراییویٹ پارٹنر شپ کی تجویزدینا کیا معنی رکھتا ہے اور بلاول بھٹو زرداری کی یہ تجویز  کتنی قابل عمل ہے؟

‎ماہرین کا خیال ہے کہ نجکاری کے عمل پر سیاست تو ہو گی لیکن اگر آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام میں جانا ہے جس کے لیے وفاقی حکومت کوششں بھی کر رہی ہے تو اس عمل کو آگے بڑھانا پڑے گا۔ جس کی جھلک پی آئی اے کی نجکاری میں بھی نظر آ رہی ہے۔

‎ ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق نقصان میں جانے والے اداروں کو فروخت کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ سوچنا ہے کہ کیا حکومتیں کمرشل اداروں کو کبھی کمرشل چلا بھی پائی ہیں؟ پاکستان کبھی بھی ان اداروں کو انڈیپنڈنٹ بورڈز اور ٹیموں کے ساتھ نہیں چلا پایا۔

کیونکہ ہمیشہ ان اداروں میں حکومتی مداخلت رہی ہے اور یہی ان کے زوال کی وجہ بنی ہے۔  اسی لیے ان اداروں کو اب نجی شعبے میں دینے سے ان میں بہتری کے امکانات ضرور پیدا ہوں گے۔

اداروں کو بیوروکریسی کے ذریعے چلانے کا کوئی فائدہ نہیں

‎کچھ اس طرح کے خیالات ماہر معیشت ڈاکٹر وقار کے بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان اداروں کو حکومت کے اندر رکھ کر بیوروکریسی کے ذریعے چلانا ہے تو بہتری کے کوئی امکانات نہیں ہو ں گے کیونکہ بیوروکریسی کے پاس ان اداروں کو چلانے کا نہ تو مطلوبہ تجربہ ہے اور نا ہی اہلیت ہے، اس لیے بہتر ہے کہ ان اداروں کو نجی شعبے کو دے دیا جائے۔

‎لیکن ساتھ ہی ڈاکٹر وقار کا یہ  بھی کہنا ہے کہ اگر ان اداروں کو خودمختاری دی جائے تو یہ ادارے اچھا کام بھی کر سکتے ہیں اور ان کے نقصانات ختم ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نادرا کی مثالیں موجود ہیں جہاں آپ نے ان اداروں کو خودمختاری دی ہے تو وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔

‎کیا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے ان اداروں کو چلایا جا سکتا ہے؟

‎پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی اس تجویز کے متعلق کہ خسارے میں جانے والے اداروں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے چلا کر ٹھیک کیا جا سکتا ہے تو ڈاکٹر خاقان نجب کا کہنا ہے کہ انفراسٹرکچر کے اداروں کو تو پبلک پرائیویٹ پارٹنر ماڈل پر چلایا جا سکتا ہے جیسا کہ سڑکیں بنا کر اور ریلوے لائنیں بچھا کر ٹرانسفر اونرشپ کے ماڈل کو اختیار کر کے کچھ حد تک کام کیا جا سکتا ہے لیکن شاید پی آئی اے جیسے اداروں میں ایسا ممکن نا ہو ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نجی ایئر لائن کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور اچھا کام کر رہی ہیں ویسے ہی پی آئی اے کو بھی نجی سیکٹر کو دے دینا چاہیے تاکہ اس کو خریدنے والے اس میں سرمایہ کاری کر کے  نئے جہاز لا کر اس کو بہتر انداز میں چلائیں۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل بھی اپنایا جا سکتا ہے

‎ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل بھی اپنایا جا سکتا ہے لیکن اس کا وہ حال نہ ہو جو کہ ترکی کی کمپنی کے ساتھ ہونے والی پارٹنر شپ کا ہوا، اس کمپنی نے لاہور سے صرف کوڑا اٹھانا تھا۔

لیکن شہباز شریف کے بطور وزیر اعلیٰ کی جانے والی اس پارٹنر شپ کا اختتام عثمان بزدار کی حکومت کے آنے کے بعد ہی ہو گیا تھا جب عثمان بزدار حکومت نے اس کمپنی کی ادائیگیاں روک لیں تھیں اورپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ختم ہونے کے بعد وہ کمپنی واپس چلی گی تھی اور اس سے پاکستان اور ترکی کے باہمی تعلقات کو بھی دھچکا لگا تھا۔

ڈاکٹر وقار کے خیال میں پاکستان میں آنے والی ہر نئی حکومت کے ساتھ ترجیحات بدل جاتی ہیں اور ایسے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل کے چلنے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

خسارے میں چلنے والے ادارے ہیں ان کے اوپر ایک اتھارٹی بنا دی جائے

‎ ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ایک کام یہ کیا جا سکتا ہے کہ جتنے بھی خسارے میں چلنے والے ادارے ہیں ان کے اوپر ایک اتھارٹی بنا دی جائے جسے آئینی تحفظ حاصل ہو جو  ان سارے اداروں کی مالک ہو اور حکومتی مداخلت سے آزاد فیصلے لے۔

اس طرح کی اتھارٹی کی مثال ملائیشیا میں موجود ہے اور اس طرح ان اداروں کو بہتری کی طرف لایا جا سکتا ہے۔

‎ڈاکٹر خاقان نجییب کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان کا ان خسارے میں کام کرنے والی کمپنیز کے متعلق فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے لیکن نجکاری کو تمام مسائل کا حل سمجھ کر نہیں کرنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ریگولیٹری نظام کی بہتری کے متعلق بھی سوچنا ہوگا۔

ریگولیٹری نظام سے نجی شعبے سے سروس ڈلیوری بہتر ہو گی

قابل لوگوں کو اس ریگولیٹری نظام میں لانا ہوگا تب ہی نجکاری سے بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ بہتر ریگولیٹری نظام سے نجی شعبے سے سروس ڈلیوری بہتر ہو گی۔ یہی ریگولیٹر پاکستان میں مختلف شعبوں میں نئی مارکیٹیں اور مقابلے کی فضا بنائے گا جس کا اس وقت بہت فقدان ہے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ کا کہنا کہ حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں بلکہ پالیسیاں بنانا ہے اور ماہرین معیشت کے مطابق ضروری  ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں جتنی جلدی یہ سمجھ لیں اتنا ملک کے لیے بہتر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp