گزشتہ دنوں آزاد کشمیر میں جو کچھ ہوا، وہ برسوں نہیں عشروں تک یاد رہے گا کہ کیسے ایک گروہ نے اپنی قوم کو مہنگائی کے ایک بدترین عذاب سے نجات دلائی۔
’عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ نامی گروہ کے مطالبات تو بہت سے تھے لیکن سردست کم از کم دو بڑے مسائل سے نجات مل گئی۔
اولاً آزاد کشمیر کے لوگوں کو اب اس قدر سستا آٹا کھانے کو ملے گا کہ اس کی نظیر مقبوضہ کشمیر میں مل سکتی ہے، نہ پاکستان میں اور نہ ہی ہندوستان میں۔ حتیٰ کہ اردگرد کے دیگر ممالک میں بھی نہیں۔ اب آزاد کشمیر کے باسیوں کو 20 کلو آٹے کا تھیلا ایک ہزار روپے جبکہ 40 کلو گرام آٹا 2 ہزار روپے میں ملے گا۔
اسی طرح بجلی کی قیمتوں میں بھی غیر معمولی کمی ہوگئی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق گھریلو استعمال کے لیے ایک سے 100 یونٹ تک بجلی کی قیمت 3 روپے فی یونٹ، 100 سے 300 یونٹ تک بجلی کی قیمت 5 روپے فی یونٹ، جبکہ 300 سے زیادہ یونٹس کے استعمال پر 6 روپے فی یونٹ وصول کیا جائے گا۔
آزاد کشمیر کے عوام سے کیے گئے دونوں وعدے وفا ہوئے تو پھر انھیں ایک بڑا ریلیف ملے گا۔ اس قدر بڑا ریلیف کہ ملک کے باقی علاقوں میں بسنے والے بھی ایسے ریلیف کی تمنا کریں گے۔
آزاد کشمیر کے لوگوں سے مذکورہ بالا دونوں وعدے کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے فرمایا ’ آزاد کشمیر کے لوگوں کی احتجاجی تحریک سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عوام کی باتوں کو غور سے سننا اور سمجھنا چاہیے‘۔
ویسے تو وزیراعظم شہباز شریف کو یہ سبق پہلے سیکھ لینا چاہیے تھا تاکہ یہ نوبت ہی نہ آتی، لوگ سڑکوں پر نہ آتے، پوری کی پوری وادی کشمیر بند نہ ہوتی، تشدد نہ ہوتا، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند نہ کرنا پڑتی۔
بہرحال حکمران اب بھی سبق سیکھ لیں تو آگے بہت کام آئے گا کیونکہ اس کامیاب تحریک کی دیکھا دیکھی ملک کے دیگر حصوں میں بھی لوگ سوچیں گے کہ کشمیری قوم اپنی زوردار تحریک کے بل بوتے پر مہنگائی کے عذاب سے نجات حاصل کرسکتی ہے تو وہ کیوں نہیں کرسکتے!
اگلے روز خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ جناب علی امین گنڈاپور نے بھی ایک الٹی میٹم کے ذریعے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنی’پیسکو‘ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پیسکو والے گھٹنے ٹیک کر وزیراعلیٰ کو بے وقوف بنا کر چلتے بنے۔ اس وقت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نہ جانے کس نشے میں تھے؟
پیسکو حکام نے وعدہ کیا کہ اب صوبے کے جن علاقوں میں 22 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کرتے تھے، وہاں 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوگی اور جہاں 18 گھنٹے ہوتی تھی، وہاں 14 گھنٹے ہوا کرے گی۔ افسوس کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا یہ وعدے سن کر فتح کے جذبے سے سرشار ہوگئے۔ وہ یہ اندازہ ہی نہ کرسکے کہ ایک روز پہلے انھوں نے بڑھک کتنی بڑی لگائی تھی لیکن اس کے بدلے میں حاصل کیا کچھ کیا؟
شاید انھیں اندازہ نہیں کہ 18 گھنٹے اور 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بھی کتنا بڑا عذاب ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انھیں 18 گھنٹے بجلی کے بغیر رہنا پڑے تو اس کے اثرات کا اندازہ ہو۔
پاکستان کے حکمران اور بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی کے معاملے پر عجب احمقانہ جواز پیش کرتی ہیں۔ اگلے روز وفاقی وزیرمنصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات جناب احسن اقبال بھی فرما رہے تھے کہ ملک کی آدھی آبادی بجلی کا بل نہیں دیتی۔ ان کے مخاطب ملک کے وہ لوگ تھے جو بجلی کے بل بھی ادا کرتے ہیں اور لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی کا عذاب بھی بھگتتے ہیں۔
موصوف کا خیال ہے کہ لوگ ان کی یہ دلیل سن کر احساس جرم کا شکار ہوجائیں گے اور منہ چھپالیں گے۔ تاہم کچھ سوالات ہیں، جن پر ہمارے حکمرانوں کو اور مقتدر اداروں کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اگر بجلی کے بل ادا کرنے والے اس ملک میں موجود ہیں تو ان سے بل وصول نہ کرنے والوں کو حکمران کیسے کہا جاسکتا ہے؟ کیا حکمران ایسے ہوتے ہیں؟؟؟
دوسرا سوال، آخر بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے افسران لاکھوں روپوں تنخواہ کس بات کی لیتے ہیں، اگر وہ نادہندگان سے وصولی نہیں کرسکتے؟
تیسرا سوال، کیا یہ ظلم نہیں کہ جو لوگ بجلی کے بل ادا کرتے ہیں، انھیں بل ادا نہ کرنے والوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑے؟ یہ ظلم انصاف فراہم کرنے والے اور انسانی حقوق کی حفاظت کا علم اٹھانے والے اداروں کو نظر نہیں آتا؟؟؟؟
بل ادا کرنے والوں پر بوجھ صرف بل ادا نہ کرنے والوں ہی کا نہیں ہے، بلکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران اور اہلکاروں کی بھاری بھرکم تنخواہوں ، مفت بجلی اور دیگر مراعات کا بوجھ بھی بل ادا کرنے والے اٹھا رہے ہیں۔ جو لوگ ان حکمرانوں اور افسران کی نااہلیوں کا بوجھ اٹھا، اٹھا کر تھک جاتے ہیں، وہ پھر ایک دن خود کشی کرلیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دنیا کا کون سا ایسا معاشرہ ہے جہاں ادارے اور اہلکار اپنی ذمہ داریوں سے اس انداز میں جان چھڑاتے ہوں؟
کیا جناب وزیراعظم شہباز شریف ان سوالات پر غوروفکر فرمائیں گے؟؟
جناب وزیراعظم کو آنے والے حالات کا اندازہ بخوبی لگا لینا چاہیے۔ وہ ایک بہت مشکل دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ان کی حکومت اندھا دھند عوام پر بوجھ بھی لاد رہی ہے، انھیں بدترین ظلم کا نشانہ بھی بنا رہی ہے اور پھر ان پر ’مجرم‘ کا ٹیگ بھی لگاتی ہے۔
جب غیظ و غضب سے بھرے عوام سڑکوں پر نکل آئیں تو دنیا کی کوئی طاقت بھی حکمرانوں کو بچانے کی ہمت نہیں رکھتی۔ کیا تیونس کے زین العابدین بن علی کو کوئی بچا سکا؟ کیا کوئی مصر کے حسنی مبارک کو بچا سکا؟
اس لیے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی لوگوں کے غم و غصہ سے ڈرنا چاہیے۔ ان کے لیے نجات کی صرف ایک راہ ہے، اور وہ ہے عوام کے ساتھ دوستی۔
بہت سوں نے ’ایک صفحہ‘ پر بیٹھ کر دیکھ لیا، اگلے پچیس برس تک حکمران بنے رہنے کا دعویٰ کرنے والے پانچ برس بھی نہیں نکال سکے۔
اب میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ بس! دو برس ہی تو مشکل ہیں۔ میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ وہ سیاست نہیں ریاست بچا رہے ہیں۔ لوگ ایسی باتیں نہیں مانتے۔ لوگ صرف اور صرف ریلیف مانگتے ہیں، ہر شعبہ زندگی میں ریلیف۔
مہنگائی کے بدترین عذاب سے نجات حاصل کرنے والے کشمیریوں کی کامیابی کو پاکستان کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔