صوبے میں بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ پر منگل کو سندھ اسمبلی اجلاس میں درجہ حرارت بلند رہا۔ وزرا و حکومتی پارٹی کے علاوہ اپوزیشن اراکین پاور سپلائی کمپنیوں پر خوب برسے اور ان کے دفاتر کی بجلی ہی منقطع کرکے افسران و عملے کو سبق سکھانے کی تجاویز رکھی گئیں۔
مزید پڑھیں
اجلاس میں صوبائی وزیر سعید غنی نے ترغیب دی کہ کے الیکٹرک کے دفاتر میں گھس کر ان کی بجلی بند کردی جائے تاکہ انہيں احساس ہو۔ تاہم اس حوالے سے انہوں نے کوئی گنڈاسا اٹھانے سے گریز کرتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ عملے یا افسران پر کوئی تشدد یا ان کے خلاف گالم گلوچ نہ کی جائے بلکہ صرف 10,12 گھنٹوں کے لیے ان کی بتی گل کرنے پر ہی اکتفا کیا جائے۔
سعید غنی نے کہا کہ آج بھی کراچی میں 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف بجلی چوروں کو سزا دینے کے بجائے سب کی بجلی بند کردینا ظالمانہ طریقہ کار ہے اور کے الیکٹرک نے کراچی میں اجتماعی سزا کا ایک نظام نافذ کر دیا ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزير اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ دیہی علاقوں میں ٹرانسفارمر ہی نہیں ہیں، کے الیکٹرک، سیپکو اور حیسکو پاکستان کے نااہل ترین ادارے بن گئے ہیں اور 20 یونٹ استعمال کرو تو 200 یونٹ کا بل بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاور کمپنیاں من پسند بل بھیجنے کی غنڈہ گردی نہ کریں کیوں کہ بل ادا نہ کرنے کی سزا بل دینے والوں کو نہیں دی جاسکتی۔
پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی ہیر سہو کی جانب سے غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف ایک مذمتی قرارداد پیش کی گئی جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔