28 مئی: لوگوں کو نواز شریف سے دور رکھا جائے

منگل 28 مئی 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

28مئی1998 کوجب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے، تووہ میرا زمانہ طالب علمی تھا۔ لوگ بہت خوش تھے۔ ایک تو بھارت کی جانب سے کیے جانے والے دھماکوں کے بعدہر شخص متجسس تھا کہ اب پاکستان کیا کرتا ہے؟ دوسرا بھارت کو جواب دینا بھی ہمارا فریضہ تھا۔ خوشی بہت بڑی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب کچھ معاملات کا بہتر ادراک ہوتا گیاتو یہ اور اس جیسی کئی خوشیاں مدھم پڑتی گئیں۔

انسان نےازمنہ قدیم میں درندوں سے حفاظت اور شکارکرنے کی غرض سے جو ہتھیار بنائے، بعد ازاں وہی ہتھیار وسائل پر قابض ہونے اور ناجائز قبضوں سے نجات کے لیے، ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے لگے۔ بات ڈنڈے، چھری، خنجر، بھالے، نیزے، بندوق اور ٹینک سے ہوتی ہوئی ایٹم بم تک پہنچ گئی۔ اسلحے کی ترقی کے ساتھ بہادری اور تقدس کاالحاق بھی مضبوط ہوتا گیا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ انسانی تہذیب و تاریخ اسلحے اور جنگوں سے بھر گئی۔ اس سب سے فائدہ اٹھانے والوں میں ایک خاص قدر مشترک رہی ہے اور وہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔

ایٹمی دھماکہ اس اسلحے کی دوڑ کی آخری اورخوف ناک حد ہے۔ جس کی تابکاری کے نقصانات کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ جس طرح موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ برف کا زمانہ آنے سے پہلے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، اوراس کے نتیجے میں برف پگھلتی ہے، گلیشئیرز ٹوٹتے ہیں، سمندری طوفان آتے ہیں، بارشیں اور شدیدبرفباری ہوتی ہے اور دنیا برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔ اسی طرح سائنس دان یہ خدشہ بھی ظاہرکرتے ہیں کہ بڑی ایٹمی جنگ کے بعد ’نیوکلر ونٹر‘ یعنی’جوہری سرما‘ کا زمانہ آ سکتا ہے۔ یہ خطرہ زیادہ خوفناک ہےکیونکہ موسمیاتی تبدیلی کا عمل تو سست رفتار ہوتا ہے لیکن ایٹمی جنگ تو کسی وقت بھی چھڑ سکتی ہے۔ ویسے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں جوہری توانائی کا استعمال ہوا، وہاں دہائیوں تک انسانی زندگی اور ماحول اس سے متاثر رہے ہیں۔ جن مقامات پر ایٹمی تجربات کیے جاتے ہیں ان کی فضا ہی بدل جاتی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس اسلحے کی دوڑ میں اپنی مرضی سےشامل ہوا ؟اس کا جواب نفی میں ہے۔ قوموں اور ملکوں کے مفادات بہت وسیع، کثیر الجہتی اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ دو چھوٹے چھوٹے قبیلوں یا خاندانوں میں بھی ایک بار دشمنی کی داغ بیل پڑ جائے تو ان دونوں کو غیر مسلح کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ان دو قوموں کے مابین نفرت کی بنیادتوبہت پرانی تھی۔

یہ اسلحہ ہمیشہ سے فوجوں ہی کے نہیں، عوام کے ہاتھوں میں بھی موجود رہا ہے۔ امریکہ جیسے ممالک میں اسلحہ اتنا عام ہے کہ آئے دن سکولوں میں بچوں کے ہاتھوں ساتھی طلبہ کے قتل عام کے واقعات سامنے آتے ہیں، اس کے علاوہ عوامی مقامات پر بھی کوئی بھی شخص کبھی بھی اٹھ کر لوگوں پر گولیاں چلا دیتا ہے۔ لیکن امریکہ جیسا ملک بھی خود کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے کوئی مناسب قانون سازی نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ بچوں کے لیے تیار کی جانے والی گیمزمیں اسلحے کا استعمال باقاعدہ سکھایاجاتا ہے اورتشدد کوفروغ دیا جاتا ہے۔ غور فرمائیں تو کتنی سامنے کی بات ہے لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ یوں لگتا ہے جیسے سب کے دماغ شل ہیں، اورآنکھیں بند ہو چکی ہیں۔ نہ توکوئی ان گیمز بنانے والوں کو روک سکتا ہے نہ اپنے بچوں کو، ہر فرد یہی کہتا ہے میں اپنے بچے کو کیسے روکوں، اس کے سکول میں، اس کے دوست اس کے کزن، سب توکھیل رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس جدید عالمی گاؤں میں طاقتوروں کے مفادات اسلحے کی صنعت کے ساتھ جڑے ہیں۔ وہ اپنے اتحادیوں کوبھی اسلحہ بیچتے ہیں اور اسی اسلحے کی بنیاد پر دنیا پر اپنی چودھراہٹ بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ چند طاقتوں کا بچھایا ہوا جال ہے جس میں ساری دنیا پھنسی ہوئی ہے۔

صرف حاجات کا تماشا ہے

سب مفادات کا تماشا ہے

سجادبلوچ

پاکستان بھی اسی دنیا کا حصہ ہے اور یہاں بھی یہ کھیل جاری وساری ہے۔ تقسیم کے بعد وجود میں آنے والے دو ممالک، بھارت اور پاکستان، آغاز سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ روایتی جنگی چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہو گئے۔ پھر یوں ہوا کہ بھارت نے 1974میں پوکھران میں جوہری تجربہ کیا تو پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ بھی یہ ٹیکنالوجی حاصل کرے۔ پاکستان فوراًاس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں جت گیا۔ اس ٹیکنالوجی کا حصول کیسے ممکن ہوا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے جوہم میں سے بیشتر کو ازبر کرائی جا چکی ہے اور تاریخ کاحصہ ہے۔ پھر یوں ہوا کہ بھارت نے 11اور13مئی1998 کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو چیلنج کر دیا۔ جواب میں پاکستان نے28مئی کو چاغی کے مقام پر کامیاب دھماکے کرکے اپنی ایٹمی صلاحیت کا ثبوت پیش کر دیا۔

اس وقت ملک کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ یہ کریڈٹ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا، کیونکہ یہ تاریخ کا حصہ ہے اور اس کے کئی غیر جانبدار گواہ بھی موجود ہیں۔ لاہور کے ایک سینئر لا پروفیسربتاتے ہیں کہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے وقت پاکستان میں موجودایک امریکی سفارت کار نے، کچھ برس بعد ایک موقع پرانھیں بتایا کہ بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکے کیے جانے کے بعد اگلے دو ہفتے تک امریکہ کی یہ کوشش رہی کہ نواز شریف کوصرف وہی لوگ ملیں جو پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکے کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ نواز شریف کے قریب ساتھیوں اور کابینہ میں کئی لوگ یہ دھماکے کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ معاشی حالات بھی کچھ اچھے نہیں تھے۔ پابندیوں کی صورت میں معیشت کو پیش آنے والی ممکنہ مشکلات کا بھی سب کو ادراک تھا۔ دھماکے نہ کرنے کی صورت میں 5ارب ڈالرزامداد کی پیشکش بھی تھی۔ شایدیہی وجہ تھی کہ مجیب الرحمان شامی سمیت کئی لوگ فوری طور پر دھماکے نہ کرنے کے حق میں تھے۔ لیکن نواز شریف کسی مسئلے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یہ کام کر گزرے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شامی صاحب جواس وقت دھماکوں کے حق میں نہیں تھے، بعد ازاں28مئی کے دن کے لیےنام کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کے سربراہ بنے، اور انھوں نے ہی پاکستان ٹیلی ویژن پراس دن کویومِ تکبیر کا نام دینے کا اعلان کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp