محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ایک بین الاقومی منصوبہ تھا۔ سانحہ کارساز میں ان پر ہوئے حملوں اور پھر پنڈی میں ان کی شہادت میں ملوث افراد میں سے اب کوئی بھی زندہ باقی نہیں ہے۔
بہت ساری پہیلیوں میں سے ایک یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کس نے کیا اور سانحہ کارساز کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ ملک کی اتنی اہم شخصیت پر حملہ ہوتا ہے اور پھر دوسری جگہ ان کا قتل ہو جاتا ہے لیکن اب تک کسی بھی کیس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کیوں نہیں ہوسکی؟ ان سوالات کے جواب کے لیے وی نیوز نے رابطہ کیا سینیئر انوسٹیگیٹو جرنلسٹ مبشر فاروق سے۔
مبشر فاروق کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ بین الاقومی پالیسی کا حصہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئر میں بہت کچھ سیکھا تھا اور بین الاقوامی طاقتوں کے مطالبات کا انکار کیا تھا اور اگر انہیں اقتدار ملتا تو لوگ ان کی ماضی کی حکومتوں کی خامیاں بھول جاتے کیوں کہ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ پاکستان بدلنے آئی تھیں لیکن جو طاقتیں بے نظیر بھٹو کو قتل کرانا چاہتی تھیں وہ کبھی نہیں چاہتیں کہ بے نظیر بھٹو اگلی وزیر اعظم بنیں۔
’قتل کی سازش پہلی مرتبہ سنہ 1995 میں میرے سامنے آئی‘
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ میرے سامنے یہ بات سنہ 1995 میں سامنے آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت میں پوری طرح اندازہ تو نہیں لگا سکا لیکن رپورٹ میرے پاس آچکی تھی کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس دور کی بات ہے جب سنہ 1995 میں اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے مجھ سے کسی کیس سے متعلق مدد مانگی تھی اور انہوں نے ہی مجھے یہ بتایا تھا کہ وزیر اعظم کے قتل کا منصوبہ تیار ہے۔ مبشر فاروق کہتے ہیں کہ میں نے نصیر اللہ بابر سے پوچھا کہ انہیں کون قتل کرے گا؟ جس پر ان کا جواب تھا کہ بے نظیر بھٹو کا کوئی سابقہ باڈی گارڈ ہوگا۔
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ اس دور میں اس پر کام شروع ہوا جب علی سنہارا اور مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہوا تو سب کو یہی لگا کہ یہ معاملہ یہیں تک محدود ہے لیکن بے نظیر بھٹو کے قتل کے منصوبے پر کام شروع ہوچکا تھا یہ الگ بات ہے کہ کسی کو اس بات کا علم نہ ہو سکا۔
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ اس پلان کے خلاف اداروں کو بہت وقت مل چکا تھا اور پھر سابق صدر مشرف کا دور حکومت شروع ہوا اور اس دور میں بے نظیر بھٹو نے کچھ الزامات بھی لگائے لیکن ان الزامات کی بات میں اس لیے نہیں کروں گا کہ بعض دفعہ ایسے بیانات سیاسی ہوتے ہیں لیکن بے نظیر کے قتل کا الزام تحریک طالبان پاکستان پر لگایا گیا، جو بعد ازاں نور علی محسود جو ٹی ٹی پی کے سربراہ تھے نے اپنی کتاب انقلاب محسود میں اس قتل کا تذکرہ بھی کیا اور ابھی تک اطلاعات کے مطابق بے نظیر کے قتل کی کارروائی میں شامل ایک بندہ آج بھی زندہ ہے جبکہ باقی مارے جا چکے ہیں۔
’ماسٹر مائنڈز آج بھی زندہ ہیں‘
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ اس کیس میں اہم پہلو یہ ہے کہ ماسٹر مائنڈز آج بھی زندہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جہادی تنظیموں کا ایک اصول ہوتا ہے کہ بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، آپ ماضی میں اگر جائیں تو جب ٹی ٹی پی نے پبلک مقامات کو نشانہ بنانا شروع کیا تو ان میں پھوٹ پڑ گئی اور بہت سخت اختلافات سامنے آئے اور بین الاقومی سطح پر جہادی سیٹ اپ کے بڑوں کو فتوے جاری کرنے پڑے کہ ایسے خودکش حملے بلکل جائز نہیں ہیں۔
مبشر فاروق نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے ایک بات آپ نے سنی ہوگی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی جب ٹی ٹی پی اپنے علاقے میں طاقت میں تھی تو اس میں 2 طرح کے لوگ شامل ہوئے ایک اسلامی نظریات والے اور دوسرے کنٹریکٹر جو اجرت پر لوگوں کو اغوا یا قتل کیا کرتے تھے۔ اس کا طریقہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ ان کا بھی ایک بین الاقومی سرکل ہوتا ہے جس میں کام کے لیے ایڈوانس ادائیگی کی جاتی ہے لیکن ایک بار اگر رقم ادا کردی جائے تو پھر قتل نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مبشر فاروق بتاتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے اس گروپ نے وہ کنٹریکٹ لیا اور بعد ازاں اسے عملی جامہ پہنا دیا گیا لیکن اگر یہ ٹھیکہ ٹی ٹی پی کو دیا گیا تو یہ لوگ تو صرف پنڈی واقعے میں ملوث تھے کراچی کے علاقے کارساز والے حملے کو کیوں دبا دیا گیا؟ ان کا کہنا ہے کہ بہت سارے معاملات ہیں جن کو دبایا جا رہا ہے۔
’پوسٹ مارٹم کے بغیر ہر کیس شروع سے ہی کمزور ہوتا ہے‘
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ بظاہر تو یہ خود کش دھماکا ظاہر کیا گیا لیکن بہت سے ایسے پہلو بھی ہیں جن کو بنا پوسٹ مارٹم کے نہیں پرکھا جاسکتا لیکن شہید بی بی کا تو پوسٹ مارٹم ہی نہیں ہوا اب دنیا کی کوئی بھی عدالت بے نظیر کے اصلی قاتل کو سزا نہیں دے سکتی، جب بھی کوئی قتل ہوتا ہے تو قانون کہتا ہے کہ پوسٹ مارٹم ہو جس میں وجہ سامنے آتی ہے، وجہ سامنے آنے کے بعد کڑیاں ملتی ہے سب چیزیں عدالت کے سامنے رکھی جاتی ہیں اور عدالت اس پر سزا دیتی ہے لیکن درمیان سے آپ پوسٹ مارٹم ہی ہٹا دیں تو کیس شروع دن سے کمزور ہوجاتا ہے۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ اسی وقت ہم نے دیکھا فرش دھل گیا صفائی ہوگئی پوسٹ مارٹم نہیں ہوا اور شواہد تو سرکار خود مٹا رہی تھی اور جہاں تک پیپلز پارٹی کی بچی ہوئی لیڈر شپ کی بات ہے تو انہوں نے کون سا شواہد مٹانے کی کوشش کی، تفتیش مکمل تب ہوتی ہے جب فوری شواہد موجود ہوں انہیں نہ مٹایا جائے لیکن شواہد مٹانے کے بعد آپ کا انحصار صرف معلومات پر ہوتا ہے یعنی آپ کے پاس ایسی سورسز ہوں جو آپ تک اندر کے معلامات پہنچا سکیں لیکن ان معلامات کو بھی واقعے کے شواہد سے جوڑا جاتا ہے اور جب یہ ملتے ہیں تب ہی تو کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے، اسکاٹ لینڈ یارڈ بھی کچھ نہیں کر سکتی۔
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ قتل کس طرح کیا گیا مختلف تھیوریز ہیں ایک یہ کہ لیور سے ہوا دوسری یہ کہ لیزر سے ہوا لیکن میں اس پر کچھ اس لیے نہیں کہوں گا کیوں کہ میں نے اس کی تفتیش نہیں دیکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک خاص ڈیوائس ہے جو پینٹاگون سے چرائی گئی تھی اور اسے کراچی ایئر پورٹ کے ذریعے کراچی لایا گیا اور پرویز مشرف کے دور میں جب وہ ڈیوائس کراچی آئی تو مجھے اس کی رپورٹ مل گئی تھی جس کو میں نے اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ افسران کے سامنے رکھا اور میں نے کہا کہ اس قسم کی ڈیوائس کے آنے کا مطلب ہے کہ کوئی بڑی کارروائی ہونے والی ہے۔
پنٹاگون کی ڈیوائسز
مبشر فاروق کے مطابق پنٹاگون نے ایسی 4 ڈیوائسز بنائی تھیں جو بلکل نئی تھیں اور دنیا میں عام نہیں تھیں ان 4 میں سے 2 اب بھی پینٹاگون کے پاس ہیں، ایک کے ذریعے افغان لیڈر احمد شاہ مسعود کا قتل ہوا تھا جسے القاعدہ نے استعمال کیا تھا لیکن 4 میں سے ایک ڈیوائس کا اب تک پتا نہیں چل سکا اور قیاس ہے کہ وہ بے نظیر کے قتل میں استعمال ہوئی ہوگی۔ اس ڈیوائس کو کوئی آلہ پکڑ نہیں سکتا تھا اور وہ دنیا کی جدید ترین ڈیوائس ہے۔
مبشر فاروق نے سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں بتایا کہ وہ تو صرف محترمہ کو بلیک میل کر رہے تھے اور انہیں بھی اتنی باتوں کا علم نہیں تھا، اس وقت کی حکومت اگر متحرک ہو جاتی تو اس قتل کو روکنے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس حکومت وقت اور پیپلزپارٹی قیادت نے بی بی کو دہشت گردوں کے لیے سافٹ ٹارگٹ بنا دیا۔
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ ایک اہم بات اور ہے کہ شہادت سے پہلے بی بی پر کارساز میں حملہ ہوا تھا جہاں بہت سے لوگ شہید ہوئے، مقدمہ درج ہوا لیکن آج تک تفتیش نہ ہوسکی اس کی وجہ یہ ہے کہ پنڈی حملہ ٹی ٹی پی نے قبول کیا لیکن کارساز حملہ کسی نے نہیں قبول کیا اور خاموشی ہے کیوں کہ اس حملہ میں کوئی اور ملوث تھا لیکن افسوس کے ساتھ اتنی اہم شخصیت پر حملہ ہوا لیکن اس کیس کی تفتیش تباہ کر دی گئی اور ایف آئی آر سیل ہے۔
کارساز حملہ کیس کے حوالے سے مبشر فاروق نے انکشاف کیا کہ اس کیس میں ایک ملزم پکڑا بھی گیا جس نے حملہ کی ذمے داری بھی قبول کی اور انکشافات بھی کیے لیکن معاملہ دب گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بڑی شخصیت کے قتل میں ایک گروہ یا شخص ملوث نہیں ہوتا بلکہ بہت سے عناصر ہوتے ہیں۔ اس کی ریکی کی جاتی ہے پورا ہوم ورک ہوتا ہے اور جب تک کسی بڑی شخصیت کے قتل میں اس کے قریبی لوگ شامل نہ ہوں تو اس کارروائی پر عمل درآمد ہو بھی نہیں سکتا۔
خالد شہنشاہ کا مشکوک طرز عمل
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ 95 میں ان کی پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے خالد شہنشاہ سے ہوئی،پھر وہ جیل بھی گئے اور پھر امریکا چلے گئے اور مجھ سے جب رابطہ ہوا تو کہنے لگے کہ میں اب پاکستان نہیں آؤں گا جب بھی آؤں گا بی بی کے ساتھ ہی آؤں گا۔
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ اس پر میرے کان کان کھڑے ہوگئے، جب خالد پاکستان آئے تو میں نے ان سے رابطہ کیا اور ملنے کا کہا۔ مبشر فاروق کے مطابق وہ خالد جو کبھی میری ایک کال پر آجایا کرتے تھے لیکن اس وقت انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ یار میری سخت ڈیوٹی ہے میں محترمہ کے ساتھ ہوں۔
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ پھر کارساز والا واقعہ ہوا اور میں نے پھر خالد سے رابطہ کیا اور کہا کہ بھائی اتنا بڑا واقعہ ہو گیا آپ مجھ سے ملیں کچھ چیزیں ڈسکس کرنا چاہتا ہوں میرے پاس کچھ معلومات ہیں جو بی بی کے تحفظ کے لیے کام آسکتے ہیں۔
مبشر فاروق کہتے ہیں خالد نے ایک بار پھر کہا کہ مبشر بھائی میں بلکل نہیں مل سکتا مجھے ملنے کی اجازت ہی نہیں ہے تو پھر میں خاموش ہوگیا۔
مبشر فاروق بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کارساز واقعہ کے بعد دسمبر میں پنڈی والا سانحہ ہوا اور میں نے پھر خالد سے رابطہ کیا تو خالد نے ایک بار پھر کہا کہ مبشر بھائی مجھے اجازت نہیں ہے ملنے کی۔ مبشر فاروق کہتے ہیں کہ میں نے اس سے سوال نہیں کیا کہ آپ کس کی اجازت پر چلتے ہیں لیکن خالد نے پھر کہا کہ آپ بلاول ہاؤس آجائیں تو ہم وہیں کسی گوشے میں بیٹھ کربات کرلیں گے۔
مبشر فاروق بلاول ہاؤس پہنچتے ہیں جہاں انہیں خالد شہنشاہ ایک راہداری میں ملے۔ ٹاؤن ناظم لیاقت آباد ڈاکٹر پرویز محمود مرحوم بھی آئے اور لوگوں کا آنا جانا لگا رہا۔ مبشر فاروق خالد کو کہتے ہیں کہ یہاں لوگوں کا آنا جانا لگا رہے گا کوئی پرایئویسی والی جگہ دیکھو کچھ باتیں کرنی ہیں۔ خالد قریب پڑے جائے نماز اور جالی والی ٹوپی اٹھا کر کہنے لگے کہ عصر کی نماز پڑھ کر پھر بیٹھ جاتے ہیں اس پر مبشر فاروق قہقہ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں کسی شیطان کو پہلی بار نماز پڑھتے دیکھ رہا ہوں، اس پر خالد نے سوال کیا تھا کہ کیوں یار میں مسلمان نہیں تو مبشر فاروق نے جواب دیا کہ زندگی میں پہلی بار نماز پڑھتے دیکھ رہا ہوں۔
مبشر فاروق کے مطابق خالد نماز عصر کے بعد مجھے بلاول ہاؤس کے کانفرنس روم لے گئے جہاں 15 سے 20 منٹ ہماری بات چیت ہوئی۔ مبشر فاروق کہتے ہیں کہ میں نے خالد سے پوچھا کہ تم تو بی بی کے بہت قریب تھے اور تم بھی اس معاملے میں شامل ہوگئے؟ خالد نے جواب دیا میں آپ کو سب بتا دوں گا لیکن یہاں میری سخت مانیٹرنگ ہو رہی ہے کسی نے سن لیا تو مصیبت ہو جائے گی تو مبشر فاروق کہتے ہیں میں نے کہا کہ تمہارے بنگلے پر بیٹھ جاتے ہیں جس پر خالد نے اپنی روٹین بتاتے ہوئے کہا کہ میں آج کل سوائے فجر کی تمام نمازیں پڑھ رہا ہوں فجر قضا ہو جاتی ہے۔
’خالد شہنشاہ کی سخت مانیٹرنگ ہوتی تھی‘
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ اس ملاقات کے اختتام پر طے پایا کہ خالد مجھے اپنے گھر بلائیں گے لیکن وعدے کے برعکس میں نے ہی پھر خالد کو کال کی تو خالد نے ایک بار پھر مجھے بلاول ہاؤس بلایا اور کہا کہ میری بہت سخت مانیٹرنگ ہے اور آپ کے ساتھ دیکھ کر یہ لوگ یہ نہ سمجھ جائیں کہ میں آپ کو کچھ بتا رہا ہوں لیکن مبشر بھائی میں بہت بے چین ہوں اور بچوں کی بہت یاد آرہی ہے، خالد کے بچے امریکا میں مقیم تھے، مبشر فاروق کہتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد ان کے بچے پاکستان آگئے۔
بی بی کے قتل سے پہلے اسٹیج پر خالد شہنشاہ کے عجیب اشارے
مبشر فاروق بتاتے ہیں کہ میں 3 بار بلاول ہاؤس گیا اور تینوں بار خالد سے ملنے گیا اور آخری ملاقات کے چھٹے روز خالد کا قتل ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بے نظیر قتل کیس میں چھپائے جانے والے عوامل میں خالد شہنشاہ بھی شامل تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بے نظیر قتل میں ان کی اپنی سیکیورٹی ٹیم شامل تھی اس میں کوئی شک نہیں اور ان کا کہنا تھا کہ خالد بہت گھبرا گیا تھا اور گھبراہٹ میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر اشارے بھی کیے اور بعد میں بھی جو اس کا کردار تھا اسی وجہ سے وہ مارا گیا اگر وہ اتنا نہ گھبراتا تو شاید اتنی جلدی نہیں مارا جاتا۔ مبشر فاروق آخر میں کہتے ہیں کہ کارساز حملہ اور پنڈی سانحہ ان میں ملوث تحریک طالبان یا دوسرے کسی گروپ کے کارندے سب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، سوائے مرکزی سہولت کاروں اور ٹی ٹی پی کے ماسٹر مائنڈز کے۔
پیپلز لائرز فورم سندھ کے صدر قاضی محمد بشیر کہا کہتے ہیں؟
پیپلز لائرز فورم سندھ کے صدر قاضی محمد بشیر نے وی نیوز کو بتایا کہ جب بی بی شہید دبئی سے پاکستان کے لیے واپس آرہی تھیں تو میں بھی ان کے ساتھ تھا، وہ ایک تاریخی دن تھا جب دنیا بھر سے لوگ بی بی سے ملنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ میری بی بی کے ساتھ تصویر بنے، ناہید خان آگے جانے نہیں دے رہی تھیں پھر جب ہم نے شور شرابا کیا تو بی بی نے سب کو بلایا اور ملیں۔
قاضی محمد بشیر کہتے ہیں کہ بی بی پر ہونے والے حملے بین الاقوامی سازش تھی جس میں مقامی مہرے استعمال ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کارساز حملے میں 2 دھماکے ہوئے تھے جس میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی بڑی تعداد شہید ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام کی بڑی تعداد بی بی کو دیکھنے امڈ آئی تھی جن میں پیپلز پارٹی کے علاوہ عام لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، دھماکوں کے بعد پیپلز پارٹی کے جیالوں نے بی بی کو اپنے حصار میں لیا اور وہاں سے نکالا۔
یہ بزدل مجھے ڈرائیں گے؟
قاضی بشیر کہتے ہیں کہ کارساز حملے کے دوسرے دن ہم اب بلاول ہاؤس میں موجود تھے اور اس وقت کے ہوم سیکریٹری ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ یہ لیٹر بی بی تک پہنچا دیں ان کا کہنا تھا کہ جب بی بی وہ خط پڑھتے سیڑھیوں سے اتر رہی تھیں تو اس خط کو یہ کہتے ہوئے پھاڑدیا کہ یہ بزدل مجھے ڈرائیں گے۔ اس خط کے حوالے سے قاضی بشیر کا کہنا تھا کہ اس میں اس حکومت وقت کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ آپ بلاول ہاؤس سے باہر نکلیں گی تو آپ کو ماردیا جائے گا آپ کی جان کو خطرہ ہے۔
جان کا خطرہ ہونے کے باوجود بی بی کا لیاری اور جناح اسپتال کا دورہ
قاضی بشیر کہتے ہیں کہ اسی وقت بی بی گاڑی کی طرف گئیں کسی کو کچھ نہیں کہا اور ہم آوازیں دیتے رہے لیکن وہ نکلیں لیاری اور جناح اسپتال کا دورہ کیا کیوں کہ وہ عوام کے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں۔
سانحہ کارساز کی کمزور ایف آئی آر
قاضی بشیر کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی ایف آئی آر اس وقت کی حکومت کی مدعیت میں درج ہوئی یہ دور تھا جنرل مشرف کا اور حکومت نے برائے نام ایک مقدمہ درج کرایا۔
اس کے بعد پیپلز پارٹی نے ایک درخواست دی تھی کہ ایف آئی آر ہماری مدعیت میں ہو گی جو آج تک درج نہ ہوسکی عدالتوں میں بھی ہماری شنوائی نہ ہوسکی اور نہ ہی اس کیس میں آج تک کوئی پکڑا گیا۔
بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف اور پرویز الٰہی سمیت دیگر کو نامزد کرنے کا کہا تھا
قاضی بشیر کہتے ہیں کہ بی بی محترمہ نے کارساز حملے میں اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل مشرف، پرویز الٰہی سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی تھی جس کے مطابق ایف آئی آر درج ہی نہیں ہوئی۔
پھر بی بی کو شہید کردیا گیا
بشیر کہتے ہیں کہ بی بی زیادہ سے زیادہ وزیر اعظم بن جاتیں اور کیا ہوتا؟ لیکن ان ظالموں نے انہیں شہید کردیا، پہلے پلان میں ناکامی کے بعد پھر پنجاب میں انہیں شہید کیا گیا۔
جب کارساز برج کی اسٹریٹ لائٹس بند کردی گئیں
بشیر کہتے ہیں کہ جب کراچی میں قافلہ کارساز برج کے پاس پہنچا تو پل کی اسٹریٹ لائٹس بند کروا دی گئی تو کیا یہ لائٹس طالبان نے بند کروائیں؟ طالبان تو خود کش حملہ کریں گے لائٹسں تو نہیں بند کریں گے۔ چلیں پنڈی میں طالبان نے حملہ کیا لیکن یہاں کس نے کیا۔ پنڈی میں اگر طالبان نے کیا تو وہ مقام کس نے دھویا؟ شواہد کس نے مٹائے؟
بے نظیر عالمی لیڈر تھیں
قاضی بشیر کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے علاقے کو سیل کیا جاتا ہے شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں اور بے نظیر عام نہیں عالمی لیڈر تھیں ان کے قتل کی جگہ کو صاف کردیا گیا شواہد مٹا دیے گئے، تو کیا وہ شواہد طالبان نے مٹائے کیا وہ جگہ طالبان نے دھلوائی؟
اسکاٹ لینڈ نے اب تک کیا کیا؟
اس سوال پر قاضی بشیر کہتے ہیں کہ بی بی کی شہادت بین الاقومی سازش تھی جس میں پرویز مشرف بھی شامل تھے۔ اسکاٹ لینڈ کی ٹیم آئی تھی انہوں نے بنا شواہد کے جو تفتیش ہو سکتی تھی وہ کی لیکن اس کی رپورٹ اب تک کیوں رکی ہوئی ہے کیوں وہ منظر عام پر نہیں آنے دی جا رہی؟