گہری کھائی سے کیسے نکلیں؟

ہفتہ 8 جون 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگرچہ 2018 کے انتخابات بھی دھاندلی زدہ تھے مگر ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی جسے عسکری اداروں کے ساتھ ایک پیج پر چلانے کی کوششیں کی گئیں۔ مثبت رپورٹنگ کے لیے بھی بھرپور زور لگایا جا رہا تھا۔ کرتار پور راہداری کھول کر ہمسایہ دشمن ملک کے ساتھ امن مذاکرات کی راہیں بھی ہموار کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ تمام ‘چور ڈاکو’ سیاستدان جیلوں میں ڈالے جا رہے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کی بھرپور طریقے سے سہولت کاری بھی جاری و ساری تھی۔ کھلا میدان تھا اور اکیلا کھلاڑی۔

مگر عمران خان نے کچھ ایسے اقدامات کئے کہ بات بن نہ سکی۔ انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک معصوم اور غریب ترین علاقے سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ لگایا جبکہ خیبرپختونخوا میں ایک امیر خاندان کے سپوت محمود خان کو وزیراعلیٰ بنایا۔ یہ دونوں وزرائے اعلیٰ حکومت کی ناکامی کا سبب بنے۔ عمران خان کا ساڑھے تین سالہ دور بری کارکردگی کا شکار رہا۔ پارٹی کے رہنما اپنے ووٹرز سے منہ چھپاتے پھر رہے تھے کہ مقتدرہ کو خیال آیا کیوں نہ ایک پیج پھاڑ کر اس حکومت کو گھر بھیج دیں۔

عمران خان کو آخری مسیحا قرار دینے والوں نے عمران حکومت کے خلاف تمام ‘چور ڈاکوؤں’ سے ساز باز کرکے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اتنے سالوں کی محنت پر پانی پھر گیا۔ ایک صفحہ پھٹ گیا۔ اتنی قربت کے باوجود عمران خان کو سمجھ نہ سکے کہ ایسی کسی حرکت پر ان کا ردعمل کیا ہوگا۔ سب جانتے تھے کہ جب عمران خان سے بگڑے گی تو وہ دیگر سیاستدانوں کی طرح خاموشی سے گھر نہیں جائے گا مگر طاقتور حلقے یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ وہ کس قدر سنگین مشکل میں پڑ جائیں گے۔ اب ایک فرد کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام مشینری اور وسائل استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس کی ایک تصویر انہیں مصیبت سے دوچار کردیتی ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم ایک مسئلے کا شکار ہیں۔ اگر کوئی وزیراعظم کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہو تو گھبرا جاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے سب کچھ تہس نہس کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اگر اپنا ہی لایا ہوا ایک لیڈر ناکام ہو جائے تو اسے پوری طرح ناکام بھی نہیں ہونے دیتے اور بغیر سوچے سمجھے ایسا کام کرتے ہیں کہ وہ پہلے سے زیادہ مقبول ہو کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔

کبھی یہ نہیں سوچا کہ اگر پاکستانی جمہوریت میں تسلسل رہتا تو عوام خود ان کا محاسبہ کرتے اور آج کئی سیاسی رہنما منظرنامے سے غائب ہوچکے ہوتے۔ عوام کے ووٹ کی تو کوئی عزت ہی نہیں۔ آج عوام کے ووٹ کی عزت کا نعرے لگانے والا خود ان کی بیساکھیوں پر کھڑے ہو کر حکومت سنبھالے بیٹھا ہے۔

 بے جا مداخلت نے جمہوری نظام کو کمزور سے کمزور تر کر دیا ہے۔ کبھی آمرانہ نظام تو کبھی ہائبرڈ حکومت۔ سب تجربات ملک کو آگے لے جانے کی بجائے تیزی سے دلدل کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ نوجوان نسل کی سب امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور اچھے مستقبل کی تلاش میں مغربی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ سرمایہ کار اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک کاروبار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ ہم بیرونی سرمایہ کاروں کی منتیں کررہے ہیں وہ یہاں سرمایہ کاری کریں۔ ایسا کیسے ممکن ہے۔ مگر ہم آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

سیاستدانوں کی ایسی بے توقیری کی گئی کہ آج جیل میں مقیم ایک قیدی کے ساتھی کہتے ہیں کہ صرف گھر کے مالک سے بات ہوگی نہ کہ مالی یا ٹھیلے والے سے۔ انہیں بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ گھر کا مالک وہی ہے جس نے انہیں گھر بھیجا۔ ایک طرف وہ بات کرنا چاہ رہے ہیں تو دوسری طرف اسی گھر کے مالک کو اپنے خلاف ہونے والے تمام مظالم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی پر اپنا مینڈیٹ چوری کرنے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔

طاقتور حلقوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔ اس سے پہلے سیاستدان کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر جانے کو تیار ہو جاتے تھے مگر عمران خان کسی صورت باہر نہیں جانا چاہتے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ انہیں کسی دوسرے ملک بھیجنے کے حق میں ہے۔ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ وہ باہر جا کر زیادہ خطرناک ہوجائے گا۔ دوسری طرف اس ہائبرڈ نظام کو ایسی عدلیہ کا سامنا ہے جو مداخلت کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے جس کے باعث اسٹیبلشمنٹ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک ایک عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ اس گہری کھائی سے کیسے نکلا جائے۔

سب تجزیہ کار متفق ہیں کہ دونوں ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ مذاکرات ہی ایسا راستہ ہے جہاں تحریک انصاف اپنا میڈیٹ واپس لینے کی ضد پر قائم رہنے کی بجائے اس حکومت کو تسلیم کرے اور اپنے دیگر جائز مطالبات پر بات کرکے اگلے الیکشن کا انتظار کرے۔ کیونکہ معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام سے ہونے والے نقصان سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp