اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے پیرس کے ’پرامن مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن‘ کی مذمت کی گئی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے پنشن مظاہروں پر فرانس کے سخت ردعمل کی مذمت کرتے ہوئے پیرس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’اپنے لوگوں سے بات کرے اور ان کی آواز سنے‘۔
تہران کی جانب سے طنز اً کہا گیا ہے کہ اپنی گلیوں میں تشدد کے ساتھ فرانسیسی حکام کو ’دوسروں کو تبلیغ‘ سے گریز کرنا چاہیے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ فرانسیسی حکومت کو اپنے عوام سے بات کرنی چاہیے اور ان کی آواز سننی چاہیے۔ کنانی نے فرانسیسی پولیس کی پیرس میں مظاہرین کو منتشر کرنے کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس قسم کا تشدد فرانس کے اخلاقیات کے سبق کی کرسی پر بیٹھ کر دوسروں کو تبلیغ کرنے سے متصادم ہے‘۔
ایرانی وزراتِ خارجہ کی ٹوئٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ہم فرانسیسی عوام کے پُر امن احتجاج پر کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم فرانسیسی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے اور اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرے جو پرامن طریقے سے اپنے مطالبات کی پیروی کر رہے ہیں‘۔
واضح رہے کہ فرانس اس وقت سے مظاہروں سے لرز اُٹھا ہے جب صدر ایمانوئل میکرون کی حکومت نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک متنازعہ پنشن اصلاحات کا بل منظور کیا تھا جس کے تحت ملک میں ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سے بڑھا کر 64 سال کر دی گئی تھی۔
اس حوالے سے جمعرات کو فرانس بھر میں دس لاکھ سے زیادہ مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے تھے، اور سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین کو پیرس میں آگ لگانے اور پولیس سے جھڑپوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
یورپ کی کونسل نے احتجاج پر پولیس کے لیے ’ضرورت سے زیادہ طاقت‘ کے استعمال پر حکومت کی مذمت کی ہے، جب کہ فرانس کے قومی مشاورتی کمیشن برائے انسانی حقوق نے دعویٰ کیا کہ سینکڑوں مظاہرین کو من مانے طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایران کو گزشتہ سال کے آخر میں حکومت مخالف مظاہروں سے نمٹنے کے لیے مغربی ممالک بشمول فرانس نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
فرانسیسی وزارتِ خارجہ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ ’ایران کو پُر امن احتجاج کے حق کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے‘ اور مطالبہ کیا تھا کہ ’یہ جبر فوری طور پر ختم کیا جائے‘۔