یاک گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے جنگلی جانور ہیں۔ یہ ٹھنڈے پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ پہاڑوں پر جڑی بوٹیاں اور گھاس پھوس کھاتے ہیں۔ یہ ایک قیمتی جانور ہے، یہی وجہ ہے کہ یاک کا کاروبار کرنے والے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ چونکہ اس کی نگہداشت میں کافی وقت اور محنت درکار ہوتی ہے، اس لیے وہ اس کے ساتھ ہی چراگاہوں اور پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں۔
کریم نذر ہنزہ گلمت گوجال کے رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’ میں یاک پالتا ہوں اور میرے پاس 16 یاک ہیں۔ ان کے ساتھ میں دور پہاڑوں پر جاتا ہوں۔ میرا ایک یاک گم گیا ہے جسے میں ڈھونڈ رہا ہوں۔ اگر ایک یاک بھی گم جائے تو ہمیں بہت نقصان ہوتا ہے۔ تقریباً 3 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘
’ہر سال لوگ قربانی کے لیے یاک بھی خرید کر لے جاتے ہیں۔ پچھلے سال بھی لوگ قربانی کے لیے یاک لے کر گئے ہیں۔ مگر یاک بہت مہنگا جانور ہے، اس لیے اس کی قربانی بھی بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ ہنزہ میں زیادہ تر لوگ یاک سردیوں میں نسالو کیلیے خریدتے ہیں۔ وہ شادی بیاہ کے موقع پر یاک ذبح کرتے ہیں۔ زیادہ تر یاک شادی بیاہ میں ہی لوگ خرید کر لے جاتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ یاک کو دوسرے جانوروں کی طرح نہیں پالا جاسکتا کیونکہ یہ ٹھنڈے مقامات اور برف پر رہتے ہیں۔ جب انہیں پہاڑوں سے نیچے لایا جاتا ہے تو وہ گرمی برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر ہم یاک کو گاؤں میں اپنے گھروں میں پالنا چاہیں تو اس پر خرچہ بھی بہت اٹھتا ہے۔ ایک یاک پر ایک سیزن میں ہی 70 سے 80 ہزار روپے کے قریب خرچہ آ جاتا ہے جس کو ہم پورا نہیں کرسکتے۔ اس لیے دور پہاڑوں پر اور چراگاہوں میں لے جاتے ہیں اور ادھر ہی ان کو پالتے ہیں۔
کریم کا کہنا تھا’یاک کے بچوں کو ہم الگ کسی اور چراگاہ میں پالتے ہیں جہاں وہ برفانی چیتوں کی رسائی سے محفوظ ہوں۔ اکثر چیتے چھوٹے یاک کو آسانی سے پکڑ کر کھا جاتے ہیں مگر وہ بڑے یاک کو نہیں کھا سکتے۔گاؤں میں کئی بار برفانی چیتے بھی آتے ہیں اور مال مویشی کھا جاتے ہیں جس سے ہمیں نقصان بھی ہوتا ہے ۔‘
انہوں نے مزید بتایا’ لوگ ہنزہ گوجال کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں پالتے بھی ہیں اور انہیں پامیر سے خرید کر بھی لایا جاتا ہے۔ اسی طرح غزر سے بھی خرید کر لایا تھا مگر وہ بہت مہنگے پڑ جاتے ہیں۔‘
یاک کا گوشت ذائقہ دار ہوتا ہے۔ مارخور اور یاک کے گوشت کا ذائقہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یاک بھی مارخور کی طرح پہاڑوں پر جڑی بوٹیاں کھاتے ہیں۔ اسی لیے زیادہ تر لوگ شادیوں میں یاک خرید کر لے جاتے ہیں۔
کریم نے بتایا کہ یاک کی قیمت اس کے وزن اور عمر کے حساب سے ہوتی ہے۔ میرے پاس 2 لاکھ سے 8 لاکھ روپے تک کا یاک موجود ہے۔ 2 سے تین سال کی عمر کا یاک تقریباً ڈھائی سے تین لاکھ روپے کا ہوتا ہے۔ ایک تو جب ہم یاک خریدتے ہیں تو ہمیں بھی بہت مہنگے داموں ملتے ہیں۔ دوسرا اس کام میں محنت اور وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ تیسرا اس میں سے گوشت کافی نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بہت قیمتی ہوجاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کریم نذر نے بتایا کہ اس سال قربانی کے لیے ایک یاک بھی فروخت نہیں ہوا کیونکہ مہنگائی بہت ہے اور یاک کی قربانی بہت مہنگی ہوتی ہے۔ تاہم کریم نے امید ظاہر کی کہ اس سال قربانی پر یاک بک جائیں گے۔ جس طرح دوسرے جانوروں کی قربانی ہوتی ہے، اسی طرح لوگ یاک کی قربانی بھی کرتے ہیں۔ اجتماعی قربانی کے لیے بھی یاک کمیونٹی کے بہت سارے لوگ پیسے جمع کرکے ایک یاک میں حصہ دار بن کر قربانی کرتے ہیں۔