قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بلوچستان میں ایک آپریشن کے دوران دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ایک اہم نیٹ ورک کے 2 کمانڈرز کو گرفتار کرلیا۔
مزید پڑھیں
کوئٹہ میں وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا اللہ لانگو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ دنوں ایک پیچیدہ آپریشن میں دہشتگرد نیٹ ورک خوارج پاکستان کے 2 اہم کمانڈرز کو گرفتار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ گرفتار کمانڈر نصراللہ عرف مولوی منصور اور کمانڈر ادریس عرف ارشاد شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمانڈر نصراللہ شوریٰ کا رکن ہے، وہ دفاعی کمیشن کا ممبر بھی رہا ہے۔ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کے دوران دہشتگرد نصراللہ کی ویڈیو بھی چلائی جس میں اس نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہے۔
دہشتگرد نے کیا اعتراف کیا؟
دہشتگرد کمانڈر نصراللہ نے اپنے بیان میں بتایا، ’میرا نام نصراللہ ہے، میرا تعلق محسود قبیلے سے ہے، ٹی ٹی پی کی تشکیل سے پہلے بھی میں تخریبی کارروائیوں میں حصہ لیتا رہا تھا، جب 2007ء میں ٹی ٹی پی وجود میں آئی تو میں اس میں شامل ہوگیا۔‘
دہشتگرد کمانڈر نے مزید بتایا کہ وہ گزشتہ 16 سال تک کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ وابستہ رہا، اس دوران براہ راست دہشتگردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا اور ضرب عضب کے دوران افغانستان فرار ہوگیا اور وہاں پکتیکا میں رہنے لگا۔
’16 سال کے دوران کئی کارروائیاں کیں‘
دہشتگرد کمانڈر نصراللہ نے بتایا، ’16 سال کے دوران میں نے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیوں میں حصہ لیا، شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور پاک افغان بارڈر پر پاک فوج کی مختلف پوسٹس پر کئی حملے کیے جن میں چغملئی چیک پوسٹ، زندہ سر پوسٹ، غر لمائی پوسٹ، اکما لا سر پوسٹ، زنگارا، مادی نارئی پوسٹ، مکین روڈ پو قافلے پر حملہ اور ماروبی چیک پوسٹ پر حملہ شامل ہے، ان حملوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کا جانی اور مالی نقصان ہوا۔
’ٹی ٹی پی میں اہم عہدوں پر کام کرچکا ہوں‘
گرفتار دہشتگرد نے بتایا، ’میں کالعدم ٹی ٹی پی کے اندر مختلف عہدوں کے اندر کام کرتا رہا ہوں، مجھے 2020 میں تحصیل شوال شمالی وزیرستان کا کمشنر بنایا گیا، 2021 میں مجھے تحصیل لائے مہمند باجوڑ کے کمشنر مولوی خان سعید کا ڈپٹی مقرر کیا گیا، میں 2023 سے اب تک کالعدم ٹی ٹی پی کے دفاعی کمیشن میں امیر کے طور پر کام کر رہا ہوں۔‘
’را کے منصوبے کے تحت بلوچستان آیا‘
’میری ذمہ داری کالعدم جماعت کے تمام تر عسکری، مالی اور انتظامی امور کو مرکزی طور پر کنٹرول کرنا تھا، میں پاکستان میں بھجوائے گئے ہتھیار اور گولہ بارود کو سنبھالتا تھا، جنوری 2024 میں کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی محسود اور وزیر دفاع مفتی مزاحم نے مجھے قندھار بلایا اور بتایا کہ ایک خاص مقصد کے لیے پاکستان کے صوبہ بلوچستان جانا ہے جس کے لیے ہمیں اسپن بولدک سے ہوتے ہوئے کالعدم بی ایل اے گائیڈ کی مدد سے بلوچستان کی جنوبی سرحد کو پار کرنا تھا۔
دہشتگرد نصراللہ نے بتایا کہ مفتی مزاحم نے یہ منصوبہ کالعدم بی ایل اے کے کمانڈر بشیر زیب کے ساتھ مل کر بنایا تھا، اس منصوبے کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ تھا جس کا مقصد کالعدم بی ایل اے اور کالعدم ٹی ٹی پی کا الحاق کرانا اور بلوچستان کے علاقے خضدار میں کالعدم ٹی ٹی پی کے مراکز قائم کرنا تھا، اس الحاق کا مقصد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں محفوظ پنا گاہیں بناکر بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے دہشتگردی کی کارروائیاں کرنا تھا۔‘
’بی ایل اے اور ٹی ٹی پی اتحاد سے متعلق سوال پر مفتی صاحب غصے میں آگئے‘
کمانڈر نصراللہ نے مزید انکشاف کیا کہ اسے مفتی مسعود اور مفتی مزاحم نے بتایا کہ بلوچستان میں قدم جمانے کے پیچھے ان کے اور را کے 3 مقاصد ہیں، پہلا سی پیک کو سبوتاژ کرنا اور چینی باشندوں کو ہدف بنانا، دوسرا اغوا برائے تاوان کی کارروائیاں کرکے جبری گمشدگی کے معاملے کو ہوا دینا اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو بدنام کرنا اور تیسرا عوام میں بے چینی اور بدامنی پھیلانا۔
دہشتگرد کمانڈر نے کہا، ’بلوچستان اور کالعدم بی ایل اے کے حوالے سے جب میں نے شریعت کے بارے میں دریافت کیا تو مولوی نور ولی نے سختی سے حکم دیا کہ کالعدم بی ایل کے ساتھ دینی معاملات پر کوئی بات نہیں کرنی، مفتی صاحب نے کہا کہ بی ایل اے کا دین سے کوئی تعلق نہیں، یہ بات سن کر جب میں نے غیرفطری اتحاد کے بارے میں سوال اٹھایا تو مولوی نور ولی غصے میں آگئے لیکن مفتی مزاحم نے معاملہ رفع دفع کروادیا۔‘
کمانڈر نصراللہ نے مزید بتایا، ’کالعدم بی ایل اے کے ایک ممبر نے پیچیدہ علاقے سے ہمیں سرحد پار کروائی اور کالعدم بی ایل اے کے ایک اور رہبر کے حوالے کردیا، سفر کے دوران رہبر بار بار ادھر ادھر دیکھتا اور فون پر کسی سے بات کرتا رہا، مجھے اور ساتھیوں کو اس پر شک گزرا، رہبر کے ساتھ قلات کی جانب تھوڑا ہی سفر طے کیا تھا کہ ہم فوج کی ایک پارٹی کے نظر میں آگئے اور ہمارے خدشات کے مطابق رہبر ہمیں وہاں ہی چھوڑ کر بھاگ نکلا، ہم نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی ہمیں گرفتا کرلیا گیا، کالعدم بی ایل اے نے منصوبہ بندی کے تحت ہمیں دھوکا دیا، تفتیش کے دوران ہم نے جو بتایا وہ سچ بتایا۔‘
’افغان حکومت ٹی ٹی پی کی مالی معاونت کررہی ہے‘
نصراللہ نے مزید انکشاف کیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے سارے انتظام خصوصاً مالی معاملات کے پس پشت ہندوستان ہے، مفتی نور ولی بھارتی خفیہ ادارے را کے ایجنٹ سے کابل میں بھارتی سفارت خانے میں جا کر ملتا ہے جبکہ اس کی پشت پناہی موجودہ افغان حکومت کررہی ہے اور افغان حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کو مالی معاونت، ٹریننگ اور افرادی قوت بھی فراہم کررہی ہے۔
اعترافی ویڈیو میں دہشتگرد کمانڈر نصراللہ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’میں مفتی نور ولی سے پوچھتا ہوں کہ ان کے زیراستعمال بم پروف گاڑی اور اس کے خاندان کے زیراستعمال گاڑیاں کہاں سے آئیں، وہ دوسرے کے بچوں سے حملے کروا کر جنت میں جانے کا فتویٰ دیتے ہیں تو یہ راستہ اپنے 9 بچوں میں سے ایک کو جنت میں بھیجنے کے لیے استعمال کیوں نہیں کرتے، میں خود ایک محسود ہوں اور تمام قبائلی عمائدین کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں کہ وہ بھی مفتی سے سوال کریں کہ دہشتگردی میں صرف دوسروں کے بچے ہی کیوں مارے جارہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت اس کا جواب نہیں دے پائے گی۔
’ٹی ٹی پی کے اہم عہدوں کے لیے محسود ہونا لازمی شرط ہے‘
دہشتگرد کمانڈر نے کہا، ’میں یہ بات آج واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے تمام چیدہ چیدہ عہدے خصوصاً مالی معاملات کے لیے پہلی اور آخری شرط محسود ہونا ضروری ہے جبکہ دوسرے قبائل کے بچوں کو ناحق مروا کر پاکستان دشمن کے مذموم مقاصد کو پورا کیا جارہا ہے، آج بھی 70 سے 80 فیصد محسود کسی نا کسی عہدے پر کمانڈر ہیں جس کی وجہ سے تنظیم میں اندرونی طور پر تشویش پائی جاتی ہے۔‘
گرفتار دہشتگرد کمانڈر نے بتایا کہ افغانستان سے پاکستان آئی تشکیلوں میں محسودوں کی تعداد انتہائی کم ہے، ہماری تمام قیادت افغانستان میں موجود ہے، افغان حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کررہی ہے بلکہ اسے مکمل سہولت کاری بھی فراہم کررہی ہے، ٹی ٹی پی کی تمام قیادت کھلے عام افغانستان میں گھوم رہی ہے، کالعدم بی ایل اے کا کمانڈر بشیر زیب بھی افغانستان میں ہے اور یہ لوگ آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ان ملاقاتوں کے پیچھے را کا ہاتھ ہے، میں کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق پر نادم ہوں۔‘
ٹی ٹی پی کا تعلق اسلام سے نہیں بھارت سے ہے، ضیا لانگو
بعد ازاں وزیر داخلہ بلوچستان نے کہا کہ وہ انٹیلیجنس اداروں اور فورسز کو مبارکباد اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس ملک کی حفاظت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اس قسم کے ملک دشمن عناصر کو پکڑنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ اس تمام شورش کے پیچھے بین الاقوامی دہشتگرد ملک بھارت کا ہاتھ ہے، کینیڈا اور امریکا میں جیسے ملکوں میں بھی لوگ بھارت کے ہاتھوں محفوظ نہیں، بھارت گزشتہ 20 سال سے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہا ہے۔
ضیا لانگو نے کہا کہ ہمارا ہمسایہ ملک ان دہشتگردوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دیتا ہے اور اسے بھارت سے مالی مدد ملتی ہے، اتنے بڑے بارڈر سے انڈین ایجنٹوں کو پکڑنا ہماری بڑی کامیابی ہے، دنیا اور ہم سب کو سمجھ جانا چاہیے کہ بعض نوجوان بیرون ملک بیٹھ کر بلوچستان کے حقوق کے نام پر پاکستان اور بلوچستان کے خلاف عزائم بنا رہے ہیں، بلوچستان اور پاکستان کے عوام انہیں پہچانیں، یہ بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے نوجوانوں کو پہاڑوں میں لے جارہے ہیں، ان کا ہمارے حقوق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بلوچستان کی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا اسلام سے دور دور تک تعلق نہیں، کیا اسلام یا مسلمان آپ کو مسجد میں یا دیگر مقامات پر لوگوں کو شہید کرنے کا کہتا ہے، ایک طرف ٹی ٹی پی اسلامی نظریات رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری طرف لبرل تنظیم بی ایل اے سے اتحاد کررہی ہے، عوام ان کو پہچانیں، ان کا مقصد بھارتی ایما پرصرف پاکستان کو نقصان پہنچانا اور یہاں بدامنی پھیلانا ہے۔