لاہور ہائیکورٹ نے اے ٹی سی سرگودھا کے جج محمد عباس کو انٹیلیجینس ایجنسی کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت دوران ڈی پی او سرگودھا اور پولیس افسران نے غیر مشروط معافی مانگ لی تاہم عدالت اس پر فیصلہ اگلی پیشی پر کرے گی۔
سماعت کے دوران ڈی پی او سرگودھا اور ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی نے اور متعلقہ ایس ایچ او نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ جس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ غیر مشروط معافی منظور کرنی ہے یا توہین عدالت کی کارروائی کرنی ہے آئندہ سماعت پر فیصلہ کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے خیر کی توقع نہیں، ترجمان پی ٹی آئی
ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم ملک سے باہر تھے عدالتی حکم پر ایک 2 ہفتوں میں عملدرامد کر دیں گے۔
عدالت نے کہا کہ اس کے سامنے ایک رٹ اور دوسرا توہین عدالت کا معاملہ ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ توہین عدالت کے معاملے کا کیا کرنا ہے عدالتی معاون حنا حفیظ عدالت کی معاونت کریں گی۔ اس پر حنا حفیظ نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، اس عدالت کے پاس اختیار موجود ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ توہین عدالت کے حوالے سے فیصلہ اگلی سماعت پر ہوگا۔ عدالت نے کارروائی اگست کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ: فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی غیرمشروط معافی قبول، ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری
یاد رہے کہ اے ٹی سی سرگودھا کے جج نے آئی ایس آئی کی جانب سے ہراساں کرنے اور عدالت کے باہر فائرنگ پر لاہور ہائیکورٹ کو خط میں کہا تھا کہ مجھے پیغام پہنچایا گیا کہ آئی ایس آئی کے کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں، میرے انکار کرنے پر کچھ لوگوں نے میرے گھر کے باہر لگے گیس کے میٹر کو توڑ دیا، مجھے واپڈا کی جانب سے بجلی کا بھاری بھرکم بل بھیج دیا گیا جو بظاہر نقلی لگتا ہے اور شاید ایجنسی کے اہلکاروں اور واپڈا کی ملی بھگت سے بھیجا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پولیس نے 9 مئی کے کیسز کی سماعت کے دن عدالت کی جانب جانے والے رستے بند کر دیے تھےاور عدالت کے باہر لگے ٹرانسفارمر پر فائرنگ کی گئی۔
خط میں مزید کہا گیا کہ 9 مئی کے کیسز کے ملزمان کے کیس کے فیصلے کے روز عدالت کا تھریٹ الرٹ کے نام پر گھیراؤ کیا گیا، اس روز نہ کوئی شخص اندر جاسکا اور نہ کوئی باہر آسکا، حتیٰ کہ ملزمان بھی عدالت کے روبرو پیش نہ ہوسکے تاہم جج میرٹ پر فیصلہ دے کر اٹھے۔