اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اب افغانستان کا سب سے بڑا دہشتگرد گروہ ہے جسے افغان طالبان اور القاعدہ نیٹ ورک کے دھڑوں کی آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے اور یہ پاکستان کے اندر دہشتگرد حملوں میں ملوث ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی داعش، القاعدہ اور طالبان سے متعلق مانیٹرنگ ٹیم کی 15 ویں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’طالبان ٹی ٹی پی کے درمیان قریبی تعلقات ہیں اور طالبان اسے ایک دہشتگرد گروہ کے طور پر نہیں سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سلامتی کونسل ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے طالبان حکومت پر زور دے، پاکستان کا مطالبہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاس تقریباً 6،000 سے 6،500 جنگجوؤں موجود ہیں جو کہ افغانستان میں ان 2 درجن یا اس سے زیادہ ایسے گروہوں میں سب سے بڑا گروہ ہے جنہیں طالبان حکومت کی نگرانی میں کارروائی کرنے کی آزادی حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ سے پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ کابل پاکستان میں متحرک دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ محسن نقوی جیسے اعلیٰ پاکستانی حکام بھی بار بار عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کروا چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کر رہی ہے اور اکثر افغانوں کو استعمال کر رہی ہے۔
ٹی ٹی پی کے پاکستان کے اندر حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے
28 مئی تک اپ ڈیٹ کی گئی اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف حملوں میں اضافہ کیا ہے، ان حملوں میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 میں ان حملوں کی تعداد 573 سے بڑھ کر 2022 میں 715 ہو گئی اور 2023 میں ان حملوں کی تعداد 1،210 ہو گئی جب کہ ان دہشگردانہ حملوں کا رجحان 2024 میں زیادہ شدت کے ساتھ تا حال جاری ہے۔
مزید پڑھیں:افغان طالبان کے دورِ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ
اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ میں پاکستان کی جانب سے حالیہ دہشتگرد حملوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے دعوؤں کو درست قرار دیتے ہوئے بشام بم دھماکے ، جس میں 5 چینی انجینئرز اور ان کے پاکستانی ڈرائیور مارے گئے تھے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں
اقوام متحدہ کی اس مانیٹرنگ رپورٹ سے پاکستان کی اس تشویش کی بھی تائید ہوتی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی کو نیٹو طرز کے خاص طور پر نائٹ ویژن کی صلاحیت والے ہتھیار بھی دستیاب ہیں، جس سے وہ پاکستانی سرحدی چوکیوں پر دہشتگرد حملوں میں بڑے پیمانے پر مدد حاصل کرتے ہیں۔
ٹی ٹی پی کو طالبان انتظامیہ اور القاعدہ کی حمایت حاصل ہے
رپورٹ میں افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کے لیے ٹی ٹی پی کے خطرے کو کم کرنے کی خواہش پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے اور طالبان کی ’ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کی حمایت اور جانبدارانہ روّیے ‘ کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ ٹی پی پی کو ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ ’داعش‘ اور القاعدہ تنظیم سے تربیت اور حمایت بھی مل رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر حملے کے لیے بارڈر تک افغان طالبان نے ہماری مکمل مدد کی، گرفتار دہشتگرد کے ہوشربا انکشافات
رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ القاعدہ پاکستان کے اندر دہشتگرد حملوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کرتی ہے، جس کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) قبول کرتی ہے تاکہ افغان طالبان حکام پر دباؤ کو کم کیا جا سکے۔
ستمبر 2023 میں پاکستانی فوج اور افغان جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی جھڑپ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کا سب سے بڑا حملہ تھا، یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کہ جب جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد نے شمال مغربی چترال میں 2 فوجی چوکیوں پر حملہ کیا تو ان کی مدد القاعدہ کے ایک بڑے دستے نے کی۔
القاعدہ افغانستان کے متعدد صوبوں میں ٹی ٹی پی کو تربیت فراہم کر رہی ہے
اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ القاعدہ کے سیل افغانستان کے متعدد صوبوں میں کام کر رہے ہیں اور اس سے وابستہ زیادہ تر تنصیبات بنیادی طور پر ٹی ٹی پی کے کارندوں کو تربیت دینے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے القاعدہ کی حمایت سے چلنے والے افغانستان میں تربیتی کیمپ بھی شامل ہیں۔ جہاں سے فراہم کی جانے والی تربیت کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے حکمت عملی تبدیل کی ہے اور سخت اہداف کے خلاف ہائی پروفائل حملے کیے ہیں۔
داعش کے حملوں میں اضافہ
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دولت اسلامیہ (داعش )، جس نے حال ہی میں روس تک اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں نے بھی حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس خطے میں داعش اور اس سے وابستہ تنظیموں کے پاس تقریباً 4 سے 6 ہزار جنگجو موجود ہیں جبکہ دیگر کا اندازہ ہے کہ ان کی بنیادی تعداد 2 ہزار سے 3 ہزار 500 ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان نے پُرامن چترال اور کیلاش کو نشانہ کیوں بنایا؟
بتایا گیا ہے کہ داعش نے مبینہ طور پر طالبان انتظامیہ میں داخلہ، دفاع اور انٹیلی جنس جیسی اہم وزارتوں میں اپنے لوگوں کو رکھا ہے جبکہ ٹی ٹی پی جیسے دیگر گروہوں میں بھی خفیہ طور پر ارکان کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔
داعش کے عناصر کو پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں دھکیلا گیا
کابل کے اس دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے کہ طالبان حکومت نے داعش کے اہم اہلکاروں کو اپنی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے پاکستان، ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں میں سلامتی کی صورتحال تشویشناک ہو گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کس طرح داعش نے افغانستان میں اپنی موجودگی کو محدود کیا ہے اور اپنی بیرونی کارروائیوں کو وسعت دی ہے، جس میں تربیت یافتہ کارندوں اور خودکش بمباروں کو یورپ، روس اور دیگر ہمسایہ ممالک بھیجنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی انسداد دہشتگردی کی صلاحیتیں اس داعش کے خطرے کی نوعیت سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔