وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل سپریم کورٹ سے ریلیف مانگنے گئی تھی لیکن ریلیف پی ٹی آئی کو دے دیا گیا، مقدمے میں تو پی ٹی آئی فریق تھی ہی نہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں محسوس ہوتا ہے آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کو ری رائیٹ کر دیا گیا، آئین کی تشریح کرنا سپریم کورٹ کا اختیار ہے لیکن معاملہ تشریح سے آگے نکل گیا ہے، نئی چیزیں لکھ دی گئی ہیں، بہرحال یہ عدالت کا حکم ہے لیکن تکلیف دہ ہے۔
مزید پڑھیں:مخصوص نشستیں: ہمیں ہمارا حق مل گیا، پی ٹی آئی کا مؤقف
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں تھیں، عدالتوں نے آئین کے مطابق انصاف دینا ہے۔ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل تھی، ایک درخواست کنول شوزب کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے آئین اور رولز کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نشستوں کی حقدار نہیں ہے۔ کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل جوائن کرنے والے آزاد تصور ہوں گے، آزاد اراکین ہمیشہ سیاسی جماعتوں کا حصہ بنتے ہے۔
ان کا کہنا تھا آج بھی وہ سینیٹرز جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے آزاد ڈکلئیر ہوئے وہ آزاد ہی درج ہیں، آزاد اراکین نے بغیر رغبت اور اپنی منشاء سے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل سے ہیں، آزاد اراکین نے خود لکھ کر دیا کہ وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سماعت میں سامنے آیا کہ سنی اتحاد کونسل میں اقلیتیں شامل نہیں ہو سکتی تو شاید یہ راستہ بنایا گیا، سپریم کورٹ میں کبھی 80 لوگ آکر کھڑے نہیں ہوئے کہ وہ پی ٹی آئی کے ہیں اور سنی اتحاد میں شامل کیوں ہونا پڑا، ان 80 اراکین نے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے ہیں اور وہی ان کی شناخت ہے۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ
وفاقی وزیر نے کہا کہ قانون کے طالبعلم کے طور پر عدالت کے وقار کو مدنظر رکھوں گا، وفاقی حکومت اس پر اپیل کرے گی یا نہیں یہ فیصلہ کابینہ کرے گی، بطور وزیر قانون نظر ثانی پر اپنی رائے محفوظ رکھوں گا، اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نظر ثانی دائر کرنی ہے یا نہیں۔ اب تک سمجھ نہیں پایا کہ سپریم کورٹ نے کون سا دائرہ اختیار استعمال کیا، عدالت اس طرح سے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال تو نہیں کرسکتی، بادی النظر میں ابھی تک کے فیصلے میں وضاحت نہیں، فیصلے میں آئینی اور قانونی خامیاں ہیں اور یہ زیر بحث رہے گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی معاملے کو سیاست کے ساتھ مکس نہیں کروں گا۔ حکومتی اتحاد نے کچھ اصلاحات کا فیصلہ کیا تھا۔ ججز کے احتساب سمیت بہت سی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک جج ایک دن میں 35، 40 کیسز کا فیصلہ کرے، دوسرا نا کرے تو کیا یہ مِس کنڈکٹ نہیں؟ جج کا فرض ہے کہ عام آدمی جس کے لیے سسٹم بنایا گیا ہے اس پر فوکس کریں، سارا رجحان سیاسی جماعتوں کی طرف ہے۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیف الیکشن کمشنر فوری مستعفی ہوں، سنی اتحاد کونسل
وزیر قانون کا کہنا تھا سپریم کورٹ فیصلے کے مندرجات دیکھ رہے ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق قانون موجود ہے، نشستیں سنی اتحاد کونسل کو جانی چاہیے تھیں، پی ٹی آئی فریق تھی ہی نہیں، آزاد ارکان نے جیتنے کے بعد کسی فورم سے رجوع نہیں کیا، سنی اتحاد کونسل کے منشور کے مطابق انھیں اقلیتی نشستیں نہیں ملنی چاہییں۔ پی ٹی آئی کے آزاد ارکان نے کبھی نہیں کہا کہ انکی جماعت کو مخصوص نشستیں دی جائیں، سنی اتحاد کونسل غیر مسلم کو اپنا رکن تسلیم نہیں کرتی، پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہئیں، عدالتی فیصلے کے دائرہ اختیار کی کوئی مثال نہیں مل رہی، عدالتی فیصلے کے باعث ابہام اور سوالات نے جنم لیا ہے۔