یوں تو موبائل فون گنوانا ملک کے تقریباً ہر شہر میں ہی اب کوئی ایسا مشکل کام نہیں رہا لیکن پشاور میں لوگوں کو اس کے لیے آج کل کوئی زیادہ ’تگ و دو‘ بھی نہیں کرنی پڑ رہی بس راستے میں کہیں بھی اپنا موبائل ہاتھ میں پکڑیں اور سمجھ لیں کہ کام ہوگیا کیوں کہ وہاں ان دنوں ’جھپٹا مار گینگ‘ سرگرم عمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک نہیں، 2 نہیں بلکہ 8 بار ڈکیتی کا شکار ہونے والے شہری کی کہانی
آپ راستے میں فون پر کسی سے بات کر رہے ہوں یا یونہی جیب ہلکی رکھنے کی غرض سے موبائل فون ہاتھ میں ہی پکڑ رکھا ہو آس پاس کسی بھی گوشے سے ایک موٹر سائیکل سوار چیل کی طرح آپ کی طرف جھپٹے گا اور اگلے ہی لمحے آپ کا قیمتی موبائل اس کے محفوظ ہاتھوں میں ہوگا اور پھر وہ ’یہ جا وہ جا‘ ہوجائے گا۔
پشاور پولیس نے حال ہی میں جھپٹا مار کر موبائل فون چھین لے جانے والے افغان گروہ کے ایک کارندے کو گرفتار کیا ہے جو پشاور میں موبائل فون اڑا کر افغانستان لینڈ کراتا ہے۔
گو جھپٹا مار گینگ کی وارداتیں پشاور میں ایک معمول بن چکی ہیں لیکن اس کے کسی کارندے کی گرفتاری پہلی بار اور بڑی مشکل سے عمل میں آئی ہے۔
ضروری نہیں کہ موبائل فون ہاتھ میں ہی ہو کبھی کبھار تو یہ گینگ آگے کی جیب سے بھی موبائل اچک لیتا ہے۔
مزید پڑھیے: پشاور میں بچوں کو کرائے پر اسمارٹ فونز کی فراہمی، 11 افراد گرفتار
پشاور کے سینیئر صحافی سجاد حیدر مرزا بھی کچھ عرصہ پہلے جھپٹا مار گینگ کے ہاتھوں اپنا موبائل فون گنوا بیٹھے ہیں۔ ان کے مطابق وہ اپنے گھر کے قریب گلبہار میں فون پر بات کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل سوار ملزمان نے جھپٹا مار کر فون ان سے لے لیا اور فرار ہو گئے۔
موبائل جیب سے نکالنا جھپٹا مار گنیگ کو دعوت دینے کے مترادف
پشاور میں گھر سے نکلنے کے بعد موبائل فون نکالنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ جھپٹا مار گینگ کو بخوشی دعوت دے رہے ہوں کہ آؤ اور میری اس فون سے جان چھڑاؤ۔
سجاد حیدر مرزا کا کہنا ہے کہ اس گینگ کے کارندے اتنی مہارت سے واردات کرتے اور پھر رفو چکر ہوتے ہیں کہ ان کی گرفتاری کا تو کوئی چانس ہی نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ موٹر سائیکل سوار پہلے اپنے ٹارگٹ کا تعین کرتے ہیں اور پھر چپکے سے عقب سے آکر فون چھینتے اور پھر برق رفتاری سے موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ پھر آپ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ موبائل فون گیا کیسے۔
افغان جھپٹا مار گنیگ کیسے بے نقاب ہوا؟
پشاور پولیس کے مطابق گرفتاری تھانہ چمکنی کی حدود میں واقع جی ٹی روڈ پر اس وقت عمل میں آئی جب ملزم اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ جھپٹا مار کر شہری سے موبائل چھین کر فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
مزید پڑھیں: پشاور: اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کا ڈیٹا بی آر ٹی اسٹیشنز کی اسکرینوں پر جاری
ایس پی رورل انعام جان نے وی نیوز کو بتایا کہ جی ٹی روڈ پر موٹر سائیکل پر سوار 2 افراد نے جھپٹا مار کر ایک شہری سے موبائل چھینا اور بھاگنے لگے کہ ایک پولیس ٹیم نے ان کا پیچھا کیا اور اس دوران فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
انعام خان نے بتایا کہ پولیس کی کارروائی میں ایک ملزم گرفتار ہو گیا جبکہ اس کا ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس نے ملزم سے پستول اور چوری شدہ موبائل بھی برامد کر لیا۔
پکڑے جانے سے پہلے ایک گھنٹے میں 3 وارادتیں
ایس پی رورل نے بتایا کہ افغان گروپ پشاور میں سرگرم ہے اور انتہائی مہارت سے واردات کرکے فرار ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گرفتار ملزم نے پولیس کو ابتدائی بیان میں بتایا کہ گرفتاری کے روز ان لوگوں نے واردات کا آغاز یونیورسٹی روڈ سے کیا تھا وہاں مین روڈ پر آتے ہوئے شہری سے موبائل چھین کر فرار ہوئے تھے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ ملزم اپنے ساتھی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار تھا اور یونیورسٹی روڈ صدر پہنچا وہاں نوتھیہ اسٹاپ پر واردات کی تاہم کامیاب نہ ہوسکا۔
یہ بھی پڑھیے: ایف آئی اے کی کارروائی، انتہائی مطلوب انسانی اسمگلر اور جعل ساز گرفتار
انعام جان نے بتایا کہ ملزم نے نوتھیہ اسٹاپ پشاور کے سینیئر صحافی رشید آفاق کے فرنٹ جیب پر جھپٹا مار کر موبائل لے جانے کی کوشش کی جس سے جیب پھٹ بھی گئی لیکن وہ موبائل نہیں لے جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان نے جی ٹی روڈ پر تیسری بار واردات کی کوشش کی اور جھپٹا مار کر ایک شہری سے موبائل فون چھین بھی لیا لیکن پھر پولیس کے ہاتھوں پکڑے گئے۔
ملزمان موٹرسائیکل پر سوار ہوکر وردات کرتے ہیں
پولیس نے بتایا کہ گینگ کے کاندرے جھپٹا مار موبائل چھیننے میں مہارت رکھتے ہیں اور عموماً ایسے افراد کو نشانہ بناتے ہیں جو سڑک کنارے پیدل چلتے ہوئے موبائل فون استعمال کرتے جارہے ہوں۔ اس طرح وہ بآسانی فون چھین کر فرار ہوجاتے ہیں۔
گرفتار ملزم افغان نیشنل ہے
پولیس نے بتایا کہ جھپٹا مار گروپ کے گرفتار ملزم کا تعلق افغانستان سے ہے اور وہ موبائل فون چوری کی کئی وارداتوں میں ملوث ہے۔
ملزم نے ابتدائی بیان میں پولیس کو بتایا کہ اس کے گینگ کا ایک منظم نیٹ ورک ہے اور یہ قیمتی موبائل چھین کر افغانستان منتقل کردیا کرتا ہے جبکہ کم قیمت موبائل کے پرزے مقامی مارکیٹ میں فروخت کردیے جاتے ہیں۔
موبائل فون اسنچینگ میں اضافہ
پولیس کے مطابق پشاور میں موبائل فون اسنیچنگ میں منظم گروہ ملوث ہیں جن میں بیشتر افغان شہری ہیں جو چوری شدہ فون افغانستان منتقل کردیتے ہیں۔
پولیس کی جانب سے جاری کردہ کرائم ڈیٹا کے مطابق رواں سال قتل، چوری سمیت 10760 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ چوری کی 124 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ پولیس ڈیٹا میں موبائل چوری کا الگ ذکر موجود نہیں۔
پشاور کے سینیئر صحافی فیضان حسین کم از کم 15 سال سے کرائم اور دہشتگری کی بیٹ پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ پشاور میں موبائل اسنیچنگ کی وارداتوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور کے ہائی سیکیورٹی زون میں موبائل فون چھیننےکی ناکام کوشش میں طالبعلم کا قتل
انہوں نے بتایا کہ پولیس اکثر موبائل اسنیچنگ کیسز درج ہی نہیں کرتی تاکہ ایس ایچ او کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔
فیضان حسین نے بتایا کہ اکثر کیسز میں پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی بلکہ روزنامچے میں اندراج کرلیتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موبائل اسنیچنگ کے کئی واقعات میں شہری جان سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔