کزشتہ روز کراچی کے ایک شہری کی جانب سے تھانہ سچل میں اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے افسران کے خلاف کرپٹو کرنسی کی ڈکیتی کا مقدمہ درج کرایا گیا۔ ڈالرز میں یہ رقم 90 ہزار 500 ڈالرز اور پاکستانی کم و بیش اڑھائی کروڑ روپے بنتی ہے مقدمہ اغوا برائے تاوان کی دفعات کے تحت درج کرایا گیا ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے پولیس کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق گزشتہ ماہ 9 جولائی کی رات کو اچانک کچھ پولیس اہلکاروں اور سادہ لباس میں افراد نے گھر کادروازہ کھٹکٹایا، دروازہ کھولا تو تیزی سے تمام اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوگئے جو زیادہ تر مسلح تھے اور مجھ سے پوچھ گچھ شروع کی، کچھ دیر بعد شلوار قمیص میں ایک شخص کمرے میں داخل ہوا اور اس نے پولیس اہلکار کے کان میں کچھ کہا جس کے بعد مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور نامعلوم مقام پر لے گئے۔
شہری کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے مجھ سے جنوبی افریقہ 90 ہزار 500 ڈالر ٹرانسفر کرائے اور مجھے واپس گھر چھوڑ دیا گیا، مجھے دھمکی دی کہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو اطلاع دی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے، میری معلومات کے مطابق لوٹنے والی ایس آئی یو کی ٹیم تھی۔
مزید پڑھیں:اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے 3 اہلکاروں پر 90 ہزار ڈالر کی ڈکیتی کا مقدمہ درج
پولیس کے مطابق مدعی کال سینٹر چلاتا ہے، پولیس نے درخواست گزار سے رقم کی منتقلی کے بارے میں تفصیلات حاصل کر لی ہیں اور واقعہ میں ملوث پولیس پارٹی کو معطل کرکے ان کے خلاف کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔
پولیس کی اطلاعات کے مطابق یہ رقم جنوبی افریقہ بھیجنے کے بعد اس رقم کو حوالہ ہنڈی کے ذریعے واپس منگوایا گیا ہے، غیر قانونی چھاپے، حوالہ ہنڈی کے پیسے منگوانے اور شہری کو لوٹنے کے معاملات کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔
سینئر کرائم رپورٹر شاہمیر خان کے مطابق یہ معاملہ ڈالرز کا نہیں بلکہ کرپٹو کرنسی کا ہے جس کی لاگت 90 ہزار 500 ڈالر بنتی ہے انکا مزید کہنا تھا کہ متاثرہ شخص کی جانب سے پولیس کو یہ بتایا گیا ہے کہ اس نے کرپٹو کرنسی میں رقم ٹرانسفر کی ہے اور اس میں اب مسئلہ یہ آرہا ہے کہ اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے اور پولیس اس میں کسی کو پکڑ پائے مشکل ہے کیوں ثابت کرنا مشکل رہے گا۔
مزید پڑھیں:اے آئی اور کرپٹو کرنسی مائننگ ماحول کے لیے کس قدر تباہ کن ہیں؟
شاہمیر خان کے مطابق اس کیس میں ڈی ایس پی شبیر کو پولیس کی جانب سے بچایا جارہا ہے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایس آئی یو کا پورا سسٹم وہی چلا رہے ہیں اور انہی کی سربراہی میں سارا کام ہوا جبکہ ایس ایچ او اختر گزشتہ منگل کو چھٹی لے کر خیبر پختونخوا جا چکے ہیں کیوں کہ وہ وہیں کے رہائشی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس کیس سے جڑے تمام اہلکار اس وقت غائب ہیں اور کسی کی پکڑائی تاحال نہیں ہوسکی۔
درخواست گزار علی کے بارے میں شاہمیر خان کا کہنا ہے کہ وہ ایک کال سینٹر چلاتے ہیں، انکے پاس بھی غیر قانونی طریقے سے باہر سے رقم آرہی ہے اور علی کے لیے بھی یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے کیسے آئی ہے۔