پاکستان میں دھرنوں کی تاریخ کچھ اچھی نہیں رہی۔ کہتے ہیں کہ جب اسٹیبلشمنٹ حکومت سے اکتا جائے یا کسی کو چلتا کرنا ہو تو پھر دھرنوں کا پلان تیار کیا جاتا ہے۔
کبھی جنرل ظہیر اسلام تو کبھی جنرل فیض، کبھی ڈی چوک تو کبھی فیض آباد، گزشتہ ایک دہائی میں ہونے والے دھرنوں نے پاکستان کو اندرونی و بیرونی طور پر تو کمزور کیا ہی تھا، ساتھ ہی لوگوں کی جانیں بھی خطرے میں ڈال دی گئیں۔
کہیں سیاستدان گولیوں کا نشانہ بنے تو کہیں عوام کا خون بہا لیکن شاید کسی بھی دھرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اگر کچھ ہوا تو ملک کا نقصان ہوا، قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، املاک کی تباہی ہوئی اور کہانی ختم شد ہو گئی۔
فروری میں ہونے والے انتخابات اس قدر متنازعہ ہیں کہ اپوزیشن تو دور کی بات، جو اقتدار میں ہیں وہ بھی انہیں ماننے کو تیار نہیں۔ اور پھر کسی سہارے کے بنا چلنا تو دور لنگڑا بھی نہ سکنے والی ایک کمزور حکومت کو کھڑا کر دیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اہم سوالات کے جوابات ہی نہیں۔ اہم سوال یا وزارت خزانہ سے ہو سکتے ہیں یا وزارت داخلہ سے، اور حکومت ان دونوں وزارتوں سے تقریباً بے دخل ہی سمجھی جاتی ہے کیونکہ دونوں وزارء کا تعلق کم از کم ن لیگ سے تو نہیں ہے۔
اس نومولود حکومت کو اقتدار تو خدا خدا کر کے مل ہی گیا مگر ہر موڑ ایک نازک موڑ ہے اور امتحانات ہی امتحانات ہیں۔ کس کا جواب دیں، کس سے سوال کریں، کچھ پتا نہیں۔ اور اس گومگو کیفیت کا اظہار ان کے اپنے لوگ اکثر نجی محفلوں میں کرتے ہیں۔
پہلےبجٹ آیا، پھر سعد آیا اور اب حافظ نعیم الرحمان پوری آب و تاب کے ساتھ سوئی ہوئی جماعت اسلامی کو جگا کے لے آیا۔ نہ صرف یہ بلکہ جماعت میں ایک نئی روح ڈال دی۔ مجمع بھی بڑا ہے اور جوش بھی خوب، لگتا تو یہی ہے کہ شاید اپنے مطالبات کے بغیر نہ جائے۔
سعد رضوی آیا اور حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ گزارشات یا سفارشات جو رکھنی تھیں رکھیں اور یہ جا وہ جا۔ لیکن فلسطین میں تو قتلِ عام ایک سال سے ہو رہا ہے، ایسا کیا تھا کہ تحریک لبیک کی قیادت کو اب یاد آیا اور پھر چند ہی دنوں میں معاملات طے ہو گئے اور سب مظاہرین چلے بھی گئے۔ کیا یہ کسی عدالتی فیصلے سے نظریں ہٹانے کے لیے تھا یا پھر حکومت کو دباؤ میں لانا تھا، یہ سوال حل طلب ہیں۔
ابھی سعد گیا ہی تھا کہ حافظ آن پہنچا۔ جو مطالبہ پنڈی میں موجود حافظ کا ہے وہ پوری پاکستانی قوم کا ہے کیونکہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے، تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کی کمی اور بجلی کے بلوں میں چھوٹ۔ باقی کچھ ہو نہ ہو لیکن مرحوم قاضی حسین احمد کے بعد حافظ نعیم الرحمان نے جماعت اسلامی کو نیا جنم بہرحال دے دیا ہے۔
محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہوں، گھروں میں ہوں یا کہیں اور، سب اس وقت جماعت کے مطالبے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن کیا ان کے مطالبات مانے جائیں گے کیونکہ آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد یہ مرحلہ انتہائی دشوار گزار ہے، مگر امید پر دنیا قائم ہے۔
ایک انٹرویو میں امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جماعت اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ میں اس بات سے 100 فیصد متفق ہوں، اگر ایسا نا ہوتا تو کہیں نا کہیں اقتدار میں فٹ ہو جاتے لیکن ایک سوال یہاں بھی کہ کیا جماعت اپنے فیصلے خود کر کہ اپنے مطالبات منوا سگے گی یا کسی اور کا سہارا لینا ہو گا ؟