دبئی میں ایک عرصے سے یہ شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ یہاں سے ملازمت یا وزٹ پر آنے والے کچھ پاکستانی افراد خواتین کی اجازت کے بغیر اُن کی ویڈیوز بناتے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں۔
دبئی حکام کے مطابق بعض پاکستانی سوشل میڈیا پر دبئی کے قوانین کا مذاق اُڑانے میں بھی ملوث ہیں جب کہ کچھ عرصہ قبل دبئی میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر بھی پاکستانیوں نے قیاس آرائیوں پر مبنی ویڈیوز بنائیں۔
اماراتی حکام ان سوشل میڈیا پوسٹس سے شدید نالاں ہیں اور اس بارے میں پاکستانی حکام کو آگاہ بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے جن اضلاع کے افراد ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہاں کے افراد کے ویزوں پر بھی غیر اعلانیہ پابندی ہے۔
مزید پڑھیں:ایف آئی اے انٹرپول کی بڑی کارروائی، متحدہ عرب امارات سے سنگین جرائم میں مطلوب 9 مجرم گرفتار
حکومتِ پاکستان بھی اس صورتِ حال سے شدید پریشان ہے اور چند روز قبل پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیر کے اجلاس میں بھی اس پر بات کی گئی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے 50 فی صد جرائم میں مبینہ طور پر پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو نوکری کے لیے ترجیح دی جاتی ہے۔
سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز کے اجلاس میں سیکریٹری اوورسیز نے بریفنگ دی، جس میں کہا گیا کہ پاکستان سے ہر سال روزگار کی تلاش اور سیاحت کے لیے 8 لاکھ سے زائد پاکستانی متحدہ عرب امارات جاتے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اب ان کی تعداد کم ہو رہی ہے اور دیگر ممالک سے ورکرز کو لایا جا رہا ہے۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر ایسویسی ایشن کے مطابق ہر سال لاکھوں لوگ بیرون ملک جا رہے ہیں اور کئی ممالک میں ورکرز کی کمی کو پورا کیا جا رہا ہے۔ لیکن متحدہ عرب امارات میں جو شکایات سامنے آ رہی ہیں ان میں زیادہ تر شکایات ان لوگوں کی ہیں جو وزٹ ویزے پر وہاں جاتے ہیں۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر ایسویسی ایشن کا مؤقف ہے کہ جو ملازمین پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک جاتے ہیں، جانے سے پہلے ان کی پولیس ویری فکیشن کروائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کا میڈیکل اور دیگر لوازمات پورے کرنے کے بعد بیرون ملک سے ملازمتیں دینے والی کمپنی انٹرویوز کے بعد ملازمین کا انتخاب کرتی ہے۔
بیش تر کمپنیوں میں جا کر کام کرنے والوں کو رہائش اور کھانا کمپنی کی طرف سے دیا جاتا ہے اور ایسے ملازمین اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور وہاں کے قوانین کو کسی طرح چیلنج نہیں کرتے۔ جو شکایات موصول ہو رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر وزٹ ویزہ پر جانے والوں کی ہے۔ مختلف ٹریول ایجنٹس پیسے لے کر 72 گھنٹوں کے اندر ایک سے 2 ماہ کا ویزہ دلوا دیتے ہیں اور وہاں جانے والے یہ افراد اکثر ایسی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
سینیٹر ذیشان خانزادہ کہتے ہیں کہ ملک میں پچھلے دو، 3 سال میں حالات خاصے خراب ہیں اور ملکی حالات کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد بیرون ملک جانا چاہتی ہے۔ پہلے 25 ہزار پاسپورٹ بنتے تھے اب 50 ہزار بن رہے ہیں۔ جیریز اور دیگر ادارے جو ویزہ میں معاون ہیں وہاں شدید رش دیکھنے میں آرہا ہے۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ اس قدر رش کی وجہ سے اسکروٹنی کا عمل متاثر ہو رہا ہے اور مختلف مافیاز بشمول بھکاری بھی ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ حکومت نے سینیٹ کی سب کمیٹی بنائی جس میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، وزارتِ تعلیم اور دیگر اداروں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ مناسب تربیت دے کر لوگوں کو باہر بھیجا جائے تاکہ ملک کا تشخص خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔
مزید پڑھیں:انٹرپول پاکستان کی کارروائی عمان اور یو اے ای سے 3 ملزمان گرفتار
بیرون ملک مقیم پاکستانی ہماری لائف لائن ہیں کیوں کہ ان کے بھیجے گئے اڑھائی سے 3 ارب ڈالر سے ہی ملک چل رہا ہے۔ سیکریٹری وزارت اوورسیز نے ایوان کی کمیٹی کو بتایا کہ سعودی عرب سے 20 لاکھ پاکستانی 7 ارب ڈالرز کا زرِمبادلہ سالانہ بھیجتے ہیں۔
وزارتِ اوورسیز کے مطابق بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں میں سب سے زیادہ پاکستانی ملوث ہیں۔ 6 سے 8 لاکھ لوگ باقاعدہ بارڈر کے ذریعے بھیجے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی کشتیوں میں لوگ پکڑے جاتے ہیں، جو پاکستان کا تشخص خراب کر رہے ہیں۔ افریقہ کی لیبر پاکستان سے بھی سستی ہے اور اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو مستقبل میں پاکستان سے لیبر امارات بھجوانے کا سلسلہ محدود ہو جائے گا۔