پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنے کی سماعت کے دوران جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان ایک موقع پر جذباتی ہوگئے اور وہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اقبال حمید الرحمان کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے دوران جذباتی گفتگو کرتے ہوئے ججز کو متنازعہ بنانے کی کوشش کا ذکر کیا اور اپنے ساتھی ججز کا بھی حوالہ دیا۔
چیف جسٹس نے اپنی گفتگو کے دوران سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اقبال حمید الرحمان کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کے خلاف وکلاء نے درخواست دائر کی جس پر انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ان کو روکا تھا مگر انہوں نے کہا کہ اپنے والد کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ مجھے شو کاز نوٹس ہوا ہے؟
جسٹس اقبال حمید کون تھے؟
جسٹس اقبال حمید الرحمٰن سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس حمود الرحمٰن کے بیٹے ہیں جو 1971 میں پاکستان بھارت کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا جائزہ لینے والے کمیشن کے سربراہ اور پاکستان کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
جسٹس حمید الرحمٰن اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس تھے اور ان کا شمار لاہور ہائی کورٹ کے ان 3 ججز میں کیا جاتا ہے جنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے پی ایس او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
جسٹس اقبال حمید الرحمٰن 25 ستمبر 1956 کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں پیدا ہوئے بعدازاں وہ مغربی پاکستان کے شہر لاہور منتقل ہوگئے۔ سنہ 2006 میں جسٹس اقبال حمید لاہور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج کے طور پر تعینات ہوئے اور ایک سال بعد انہیں لاہور ہائی کورٹ کا مستقل جج مقرر کر دیا گیا۔
سابق آمر پرویز مشرف کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرنے کے بعد جسٹس اقبال حمید نے عبوری آئین کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں انہیں معزول کر دیا گیا تاہم بعدازاں ججز بحالی کی صورت میں انہیں بھی بحال کر دیا گیا تھا۔
سنہ 2011 میں انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس بننے کا اعزاز حاصل ہوا،سنہ 2013 میں انہیں سپریم کورٹ میں ترقی دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا جج مقرر کیا گیااور انہوں نے 2021 تک بطور جج سپریم کورٹ فرائض سر انجام دینا تھے لیکن تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد سنہ 2016 میں جسٹس اقبال حمید الرحمٰن بطور سپریم کورٹ جج اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
جسٹس حمید اقبال نے اپنے استعفیٰ میں وجوہات کا ذکر تو نہیں کیا تھا تاہم اس وقت ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ غیر قانونی تقرریاں کی تھیں جس کو بنیاد بناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی جانب سے کی گئی تعیناتیوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی گیا تھا اور بعدازاں عدالت نے ان تمام تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا تھا۔
جسٹس حمید اقبال پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ بطور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور کمیٹی کے سربراہ کے انہوں نے 70 سے زائد غیر قانونی تقرریاں کی تھیں۔ سپریم کورٹ نے 2010 سے 2013 تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی گئی تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور اسی فیصلے کی بنیاد پر ان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔
جسٹس اقبال حمید نے بطور لاہور ہائیکورٹ جج گوجرہ کے علاقہ میں عیسائی آبادی پر ہونے والے حملے کی عدالتی تحقیقات بھی کیں جبکہ بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سلمان تاثیر قتل مقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ میں بھی شامل تھے۔
انہوں نے بطور سپریم کورٹ جج کے توہین رسالت پر سزائے موت پانے والی خاتون آسیہ بی بی کی اپیل سننے سے بھی انکار کر دیا تھااور خود کو اس کیس سے خود کو یہ کہتے ہوئے علیحدہ کر لیا تھا کہ سلمان تاثیر مقدمے کی سماعت وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کر چکے ہیں اور دونوں مقدمات کا آپس میں تعلق ہے اس لئے وہ بینچ میں شامل نہیں ہوسکتے۔
اس بینچ میں شامل ہونے سے معذرت کرنے پر بھی وہ خبروں میں گردش کرتے رہے اور چند دنوں بعد ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے پر انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
اس وقت انہوں نے استعفیٰ میں کوئی وضاحت تو نہیں دی تھی تاہم 7 برس بعد چیف جسٹس آف پاکستان مقدمے کی سماعت کرتے وقت ان کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ جب ان کو استعفیٰ دینے سے روکا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے والد (حمود الرحمٰن) کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ مجھے نوٹس ہوگیا ہے؟’