دعا زہرا کو کیسے جال میں پھنسایا گیا، والد مہدی کاظمی کے ہوشربا انکشافات

پیر 5 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دعا زہرا گمشدگی کیس کا شمار پاکستان میں لاپتا افراد سے متعلقہ ان چند کیسز میں ہوتا ہے جسے مین اسٹریم میڈیا پر خاصی توجہ حاصل ہوئی کیونکہ یہ ایک غیرمعمولی نوعیت کا کیس تھا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی دعا زہرا 16 اپریل 2022 کو کورنگی میں واقع اپنے گھر سے لاپتا ہوگئی تھی۔ اس وقت اس کی عمر صرف 14 برس تھی۔

دعا زہرا کی گمشدگی کے بعد ان کے والد مہدی کاظمی کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد دعا کی تلاش شروع گئی اور انہیں مئی میں پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے بازیاب کرایا گیا۔ اس دوران دعا زہرا کا مبینہ طور پر نوجوان ظہیر احمد سے نکاح کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سے لاپتہ ہونے والی دعا زہرا نے والدین کا سر فخر سے بلند کر دیا

دعا زہرا کے مبینہ اغوا کے بعد ان کے بہادر والد مہدی کاظمی اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے مسلسل لڑتے رہے۔ دعا کا کیس سندھ ہائیکورٹ میں چلا اور عدالت نے 28 جولائی 2022 کو دعا زہرا کو مقدمے کی مدت تک حکومت کے زیر انتظام چلڈرن پروٹیکشن اور شیلٹر ہوم میں رہنے کا حکم دیا۔

گزشتہ برس جنوری میں سندھ ہائیکورٹ نے عدالتی حکم پر شیلٹر ہوم بھیجے جانے والی دعا زہرا کو عارضی طور پر ان کے والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ دعا زہرا کی مستقل حوالگی کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے کیا جائے گا۔ بعد ازاں، دعا کے والد کی جانب سے کراچی کی فیملی عدالت میں تکذیب نکاح کا کیس بھی دائر کیا گیا تھا۔

’یہ سب PUBG سے شروع ہوا‘

حال ہی میں، دعا زہرا کے والد نے ایک پوڈ کاسٹ پروگرام میں شرکت کی اور اس حوالے سے تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی دعا زہرا گیمز کے چیٹنگ آپشنز کے ذریعے اغوا کاروں کے چنگل پھنسی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت تک وہ گیمز میں چیٹ آپشن کی پیشکش کے فیچر سے بالکل بے خبر تھے۔

مہدی کاظمی نے بتایا کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ویڈیو گیم  PUBGکے ذریعے ایسا کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’میرے لیے یہ صرف ایک گیم تھی، ایک بار جب دعا گیم کھیل رہی تھی تو میں نے پیچھے سے کھلاڑیوں کی چند آوازیں سنی تو میں نے دعا کو فوراً PUBG  کھیلنے سے روک دیا جس کے بعد اس نے میرے سامنے یہ گیم نہیں کھیلی۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمری کی شادی بچیوں کو کیسے متاثر کرتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ کوئی گیم اتنی خطرناک بھی ہوسکتی ہے، یہ معاشرے کے لیے ایک مثال ہے کہ وہ سبق حاصل کرے اور اپنے بچوں پر نظر رکھے، میری بیٹی کے پاس فون نہیں تھا، البتہ پڑھائی اور گیمنگ کے لیے اس کے پاس ٹیبلٹ تھا۔

مہدی کاظمی نے بتایا کہ ٹیب میں سم کا آپشن بھی نہیں تھا لیکن آج کل ایپس میں اتنی جدت آگئی ہے کہ والدین بھی اس میں موجود آپشنز کو نہیں سمجھ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے گیمنگ سے بہتر آپشنز بھی موجود ہیں جنہیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت میں ان کے بیان کے مطابق، یہ سب PUBG  سے شروع ہوا جہاں دعا اور ظہیر نے ایک دوسرے سے بات کرنا شروع کی، PUBG  کے بعد وہ دونوں ’کلیش آف کلینز‘ نامی ایک اور گیم کھیلنے لگے، وہ دونوں بنیادی طور پر گیمنگ کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں تھے۔

’اغواکاروں نے مسلسل ہمارے گھر اور گلی پر نظر رکھی‘

جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن کے بارے میں بات کرتے ہوئے مہدی کاظمی نے بتایا، ’یہ واقعہ رمضان المبارک میں پیش آیا، میں گھر پر تھا جب یہ سب ہوا، میری بیوی نے دیکھا کہ گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور ہماری بیٹی بھی غائب تھی، ہم نے اسے گھر میں تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملی اس لیے میرے پاس پولیس میں شکایت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایف آئی آر درج کرائی، اور قانونی کارروائی شروع کر دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ دعا کے بیان کے مطابق، ’اس کا ظہیر سے گیم کے ذریعے رابطہ تھا، تمام اہم تفصیلات عدالت میں ہیں، میں یہاں تمام تفصیلات شیئر نہیں کرسکتی۔‘

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا دعا زہرہ کو والدین کے حوالے کرنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ دوسرے فریق نے عدالت میں جو بیانیہ بنایا وہ سراسر من گھڑت تھا، انہوں نے واقعے سے پہلے ہماری گلی اور علاقے پر مسلسل نظر رکھی، انہوں نے دعا کو گھر سے نکلنے پر اکسایا جس کے بعد وہ لاپتہ ہو گئی۔

سوشل میڈیا صارفین بالخصوص والدین مہدی کاظمی کی بہادری کو سراہ رہے ہیں اور ان کے خاندان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انہیں ایسا ہیرو قرار دیا جارہا ہے جس نے اپنی بیٹی کے تحفظ کے لیے ہر والد کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔

خیال رہے، گزشتہ ماہ کراچی کی فیملی کورٹ شرقی نے والد مہدی کاظمی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے دعا زہرا کی کسٹڈی مستقل طور پر والدین کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جب تک بچی بالغ نہیں ہو جاتی وہ مستقل طور پر والدین کے ساتھ رہے گی، بچی کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی والدین کے حوالے کیا جارہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp