سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے خلاف بھی کارروائی کے بارے میں غور کیا جارہا ہے۔
اس حوالے سے انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں سینیئر صحافی انصار عباسی کی شائع ہونے والی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے خلاف کوئی کارروائی زیرغور نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذرائع نے جنرل باجوہ کے خلاف ممکنہ کارروائی کے بارے میں سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے مارشل لا نافذ کرنے کی دھمکی دی تھی، خواجہ آصف
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کوئی جواب نہیں دیا البتہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سوشل میڈیا پر کی جانے والی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں، واٹس ایپ گروپ کے ذریعے پھیلائی گئی ’انٹیلی جنس رپورٹ‘ کے عنوان سے سوشل میڈیا پوسٹ سراسر جعلی ہے جس میں جنرل باجوہ کے خلاف بھی ممکنہ طور پر جنرل فیض جیسی کارروائی کی بات کی گئی ہے۔
دی نیوز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ جنرل فیض کی گرفتاری کے سلسلے میں جنرل باجوہ کی رہائش گاہ کے ارد گرد اضافی سیکورٹی تعینات کردی گئی ہے اور ممکنہ طور پر ان کے خلاف بھی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔ اسوشل میڈیا پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنرل باجوہ نے اپنی رہائش گاہ کے اردگرد تعینات کردہ اضافی سیکیورٹی کو خاموشی سے قبول کرلیا ہے، تاہم ذرائع نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے میں جنرل باجوہ اور فیض حمید کا کوئی کردار نہیں، ملک احمد خان
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جنرل باجوہ دبئی میں ہیں اور آئندہ چند روز میں وطن واپس آجائیں گے۔ دوسری جانب بتایا گیا ہے کہ مذکورہ جعلی پوسٹ کو ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے، یہ فوجی افسر بیرون ملک مقیم ہے اور فوج مخالف مہم چلانے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے، اس ریٹائرڈ فوجی افسر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت بغاوت پر اکسانے کے جرم میں 14 سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس فوجی افسر کو پاکستان آرمی ایکٹ، 1952ء کے تحت سزا سنائی گئی تھی، اس پر فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے اور جاسوسی سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ، 1923 کی دفعات کی خلاف ورزی اور ریاست کے تحفظ اور مفاد کے خلاف اقدامات کرنے کا الزام تھا۔
جنرل فیض کے بعد مزید نام سامنے آئیں گے
دوسری جانب، قومی سلامتی امور اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف کارروائی کے بعد مزید کئی ایسے کردار ہیں جو بتدریج سامنے آئیں گے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا جارہا ہے کہ جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کا بھی امکان ہے۔ اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ ثاقب نثار کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے جس میں ایسے تمام کردار درج ہیں جو ممکنہ طور پر ایک باقاعدہ نیٹ ورک کا حصہ ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل باجوہ نے نواز شریف سے ڈیل کرکے جنرل فیض کو تبدیل کیا تھا، عمران خان
گزشتہ روز سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے ایک پریس کانفرنس میں ثاقب نثار کو عمران خان کا سہولت کار قرار دیا تھا۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو فوجی تحویل میں لیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر خبریں زیرگردش تھیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے، تاہم سابق چیف جسٹس ان خبروں کی تردید کرچکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مبالغہ آرائی کی جارہی ہے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا کہ وہ کچھ دنوں سے بیرون ملک ہیں اور وہ اپنے ذاتی کام کی وجہ سے ملک سے باہر گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے حوالے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے جو باتیں اس وقت سوشل میڈیا پر کی جارہی ہیں وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور یہ تمام باتیں جو میرے ساتھ منسوب کی جارہی ہیں غلط ہیں۔
ماہر قومی سلامتی امور سید محمد علی اور دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ وقار حسن نے خیال ظاہر کیا ہے کہ فیض حمید کے خلاف انکواری آخری مراحل میں ہے جس کے بعد مزید نام سامنے آئیں گے۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیض حمید نے جو کچھ کیا یہ سب کچھ نیٹ ورک کے بغیر ممکن نہیں تھا، اب اس نیٹ ورک کو توڑا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فیض حمید پر ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں، آئی ایس پی آر
ماہر قومی سلامتی امور سید محمد علی کا کہنا تھا کہ 7 مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف انکوائری اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس انکوائری کمیٹی نے جو شواہد اور ثبوت اکٹھے کیے، اس کی بنیاد پر جنرل فیض حمید کو گرفتار کیا گیا اور گزشتہ روز مزید 3 فوجی افسران کو تحویل میں لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق کیس میں بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ فوج کے قوانین کے تحت جنرل فیض کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے، آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ جنرل فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔