کچھ عرصہ قبل میری نظر سے یہ خبر گزری کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے مخصوص شہروں کے حامل پاسپورٹ رکھنے والوں کے ویزے اجرا پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان علاقوں کے باشندے وہاں جا کر بھیک مانگنے جیسے نا پسندیدہ عمل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی انتظامیہ سال نو کی تقریبات کے موقع پر اس قبیح رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی تھی۔
خبر پڑھ کر غصے اور مایوسی کی ملی جلی کیفیات تھیں، مگر تھوڑی دیر بعد شرمندگی کا عنصر غالب آ گیا۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ جو متحدہ عرب امارات کے سفری اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، وہ کیوں معاشی مجبوری کے تحت بھیک مانگیں گے۔ ایسے پیشہ ور بھکاریوں سے ہم دردی نہیں ہونی چاہیے، نیز ان سے نپٹنے کا یہ طریقہ مناسب ہے کہ ملک میں ان کے داخلے پر پا بندی عائد کر دی جائے۔
مملکت خداداد میں پھیلے ہوئے بھکاریوں کے غول ہمارے مشاہدے میں ہیں۔ معبدوں، درگاہوں میں گدا گروں کی تعداد زیادہ ہوا کرتی ہے جو رمضان، عاشورہ اور عیدین کے موقع پر کئی گنا بڑھ جاتی ہے. غربت کا عفریت بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اس کا سبب معاشی وسائل کے کمی ہے یا کچھ اور، سڑکوں، چو راہوں، بسوں، ٹرینوں، ریستورانوں، اسپتالوں، بازاروں، الغرض ہمارے اطراف کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا، جو ان کی دست رس میں نہ ہو۔ آٹھ پہر میں سے کوئی ایک پہر ہو، گاڑی کسی سگنل پر روکیں، یہ ہاتھ پھیلائے ظاہر ہوں گے۔
کسی سیر گاہ کا رخ کریں، خاندان کے ساتھ فرصت کے کچھ لمحے بتانے چلے جائیں، یا کسی بس اسٹاپ ہی پر کیوں نا کھڑے ہوں، ان گنت کم سن و عمر رسیدہ گداگر، کوئی مجبوری بیان کرتے پائے جائیں گے۔ خدا اور رسول کا واسطہ دے کر معمولی چیزیں بیچنے والے آپ کے پل یوں اجیرن کر دیتے ہیں کہ کچھ دیتے ہی امان ملے۔
دن میں اگر گھر کے دروازے پر دس دفعہ دستک سنائی دے تو کم از کم پانچ بار کسی بھکاری سے سامنا ہو گا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ان پیشہ وروں میں مستحقین بھی ہوتے ہیں، مگر اکثر کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں کہ بھیک طلب کرنا ان کے لیے کمائی کا ایک سہل طریقہ ہے۔
علم عمرانیات کے ماہرین گدا گری کو ایک ایسا سماجی رویہ قرار دیتے ہیں، جس میں معاشرے کا محروم طبقہ اپنی کفالت کے لیے متمول افراد سے اشیائے خور و نوش، لباس اور دیگر ضروریات کے لیے رقم کا مطالبہ شروع کر دیتا ہے۔
مذہبی کتب، اخلاقی تعلیمات اور مروج اقدار کے مطابق، خیرات کرنے والوں کو معزز گردانا جاتا ہے۔ نہ جانے یہ انسانی فطرت ہے یا تربیت کہ رزق بانٹنے سے انسان میں تسکین قلب کا احساس اجاگر ہوتا ہے.
چناں چہ تسکین قلب کے حصول کے لیے سہل یہ ہے کہ جو بھی در پر صدا لگائے، خیرات یا صدقے کے نام پر کچھ نہ کچھ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا جائے۔ یوں پیشہ ور گدا گروں کی حوصلہ افزائی کا سامان ہوا۔
ترقی پذیر ممالک جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہو، اس پر بنیادی تعلیم اور ہنر مند بنانے کی تربیت کا کوئی مربوط نظام موجود نہ ہو، وہاں معاشی نا ہم واری عروج پاتی چلی جاتی ہے۔
مخیر حضرات اور ادارے، سالانہ اربوں روپے لنگر خانوں اور ماہانہ وظائف پر خرچ کر دیتے ہیں، کیا اسی رقم سے ان غربا کو فنی تربیت یا کوئی چھوٹا کار و بار شروع کروانے کا بند و بست نہیں کیا جا سکتا! ممکن ہے اس میں یہ قباحت ہو کہ پھیلے ہوئے ہاتھ پر سکہ رکھ کے جو “قلبی سکون” ملتا ہے، وہ اسے دست ہنر بنانے سے نہ ملتا ہو!
معاشرتی مسائل کا حل معاشی وسائل بڑھانے میں پوشیدہ ہے۔ ہنر مندوں میں اضافہ کرنا اور ان ہنر مندوں کے لیے روز گار کے مواقع پیدا کرنا، ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
مقتدر قوتیں جب اقتدار کی چھینا جھپٹی میں پڑی ہوں تو شہریوں کا احوال بھکاریوں کے مانند ہو جاتا ہے، جن کا والی وارث کوئی نہیں بنتا۔ بے یقینی کی فضا میں جینے والے افراد ہوں یا ریاستیں، انھیں بھیک ہی کا سہارا ہوتا ہے۔