پی آئی اے کی نجکاری میں تاخیر کیوں ہوئی؟

جمعرات 29 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حکومت نے مشکل معاشی حالات کے باعث سرکاری خزانے پر بوجھ بننے والے قومی اداروں کی فوری نجکاری کا اعلان کیا تھا۔

پی آئی اے اس وقت 850 ارب روپے سے زائد کا مقروض ہے جبکہ اس کے اثاثوں کی مالیت 161 ارب روپے ہے۔ قومی ایئرلائن کو صرف سال 2023 میں 75 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے کون سے 24 اداروں کی نجکاری کی منظوری دی؟

پی آئی اے کی نجکاری کافی عرصے سے تاخیر کا شکار ہے۔ نگراں دور حکومت میں اس وقت کے وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا تھا کہ نجکاری کا کام 98 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور نئی منتخب حکومت کے آتے ہی پی آئی اے کی نجکاری کر دی جائے گی۔ جبکہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے مارچ میں بھی پی آئی اے کی نجکاری پر عملدرآمد کے لیے حتمی شیڈول طلب کیا تھا اور پہلے جون اور پھر اگست کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم ابھی تک نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے سینیٹ کمیٹی برائے نجکاری میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے بریفننگ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سب کچھ کر لیا ہے تاہم پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والے فی الحال مزید تفصیلی جائزہ لینا چاہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو بھی پی آئی اے کو خریدے گا اسے پہلے سال میں 80 ارب روپے پی آئی اے کو چلانے کے لیے چاہیے ہوں گے اور اس کے علاوہ اسے 200 ارب روپے کا قرض واپس کرنا ہو گا۔

مزید پڑھیے: حکومتی اقدامات سے مہنگائی کم ہوئی، پی آئی اے کی نجکاری ہوکر رہے گی، مصدق ملک

پی آئی اے خریدنے کے لیے سب سے پہلے 8 کمپنیوں نے رابطہ کیا تھا جس کے بعد 6 نے کوالیفائی کیا تاہم اس وقت صرف 2 کمپنیاں ایئر بلیو اور بلیو ورلڈ سٹی پی آئی اے کی خریداری میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

عثمان باجوہ نے بتایا کہ بلیو ورلڈ سٹی نے بین الاقوامی کنسلٹنٹ رکھا ہوا ہے جو کہ ہمارے ساتھ مختلف میٹنگ کر چکا ہے اور تقریباً تمام معاملات کا جائزہ لے چکا ہے۔

سیکریٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا عمل جون میں ہونا تھا تاہم دلچسپی کا اظہار کرنے والی کمپنیوں نے کچھ وقت مانگا اور پی آئی اے کا جائزہ لینے کا تقاضا کیا بعد ازاں ان کمپنیوں کے نمائندوں نے پی آئی اے کا دورہ کرایا گیا۔ کمپنیوں نے جہازوں کا معائنہ کیا، پی آئی اے کے عملے کی تفصیلات دیکھیں، انجن کی مرمت کا ریکارڈ تک دیکھا اور 2 کمپنیاں تو بیرون ملک کمپنیوں سے بھی معائنہ کرا رہی ہیں۔

عثمان باجوہ نے کہا کہ اس وقت تک ان کمپنیوں کے ساتھ 3 میٹنگ ہو چکی ہیں اور انہوں نے تمام تفصیلات فراہم کرنے کے باوجود مزید تفصیلات مانگی ہیں اور کہا ہے کہ بولی کا عمل اکتوبر تک مؤخر کرایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ چوں کہ کمپنیاں ابھی پی آئی اے کے خسارے اور قرض کی ادائیگیوں کا جائزہ لے رہی ہیں اور وقت مانگ رہی ہیں، یہ عمل جاری رہا تو نجکاری میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: اداروں کی نجکاری کا عمل شفاف ہوگا، نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار

سیکریٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کی بات گزشتہ 10 سالوں سے کی جا رہی ہے، اگر نجکاری سنہ 2015 میں ہو جاتی تو بہت بہتر ہوتا اور ملک کا اربوں کا نقصان نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی وجوہات بھی نجکاری میں رکاوٹ بنی، نجکاری پروگرام اگر مکمل اور کامیاب ہو گا تو اس کے لیے تمام کو ساتھ دینا ہو گا۔ کمرشل بینکوں کو قرض پر 10 ارب روپے سود ماہانہ دینا ہوتا تھا تاہم اب بینکوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد شرح سود کو 23 فیصد سے کم کر کہ 12 فیصد تک کر دیا ہے۔

 عثمان باجوہ نے کہا کہ حکومت کی تیاری تو اس حد تک ہے کہ اس نے معاہدوں کے ڈرافٹ بھی کمپنیوں کے ساتھ شیئر کر دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والی کمپنیاں 75 فیصد شیئرز کا حصول چاہتی ہیں جبکہ ایک کمپنی تو 100 فیصد شیئر حاصل کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ 15 ستمبر تک پارٹیوں کے ساتھ معاملات طے کر لیے جائیں گے جس کے بعد اکتوبر کے آغاز میں نیلامی کی جائے گی۔

سینیٹ کمیٹی برائے نجکاری کے چیئرمین اور مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ ہر حکومتی دور میں سیاسی وجوہات کی وجہ سے نجکاری نہیں کی گئی جس سے ملک کا اربوں روپوں کا نقصان ہوا۔

یہ بھی پڑھیے: پی آئی اے کی نجکاری کے بعد ملازمین کا کیا ہو گا؟

طلالچہودری نے کہا کہ ہر دور میں اپنے سیاسی مفادات کے باعث نجکاری نہیں کی گئی اور ہماری کوشش ہے کہ کسی ملازم، ادارے کا نقصان نہ ہو لیکن پاکستان کا نقصان بھی نہ ہو اور نجکاری کا عمل مکمل ہو جائے۔

واضح رہے کہ نگراں دور حکومت میں پی آئی اے کے اثاثوں اور واجبات کے تخمینے کے لیے فنانشل ایڈوائزر تعینات کیے گئے تھے جن کی رائے کے مطابق پی آئی اے کو 2 حصوں میں تقسیم کا پلان منظور ہوا تھا جس کے تحت پی آئی اے کا بینکوں سے لیا گیا قرض ایک نئی کمپنی پی آئی اے ہولڈنگ کو منتقل کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا اور موجودہ دور حکومت میں پی آئی اے کی تقسیم کا یہ عمل مکمل ہوا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp