بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اور ملک کے سینیئر سیاستدان سردار اختر خان مینگل پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔
سردار اختر مینگل نے محمود خان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے (صوبے کے) لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرسکا اور ایسی سیاست کرنے سے تو بہتر ہوگا کہ میں پکوڑوں کی دکان لگا لوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے اور جب بھی بلوچستان کے مسئلے کی بات کرو تو بلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے۔
میرے والد سردار عطاء اللہ مینگل کی تیسری برسی کے موقع پر، میں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بطور رکن پارلیمنٹ استعفیٰ دیتا ہوں۔ میں، اختر مینگل، رکن قومی اسمبلی، بطور رکن پارلیمنٹ اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال نے مجھے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔…
— Akhtar Mengal (@sakhtarmengal) September 3, 2024
انہوں نے کہا کہ جو لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں ان کو بھی نہیں بولنے دیا جاتا، میں ریاست، صدر اور وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں۔ 23 جولائی 2023 کو پی ایم ہاؤس میں ایک میٹنگ تھی، وہاں بیٹھ کر کہا کہ اگر میری سیاست کی آپ کو ضرورت نہیں تو ہم کنارہ کر لیں گے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی سیاست اور ریاست دونوں سے مایوس ہو چکا ہوں، اختر مینگل
سردار اختر مینگل نے کہا کہ آج تک کوئی اردو بولنے والا، پشتو بولنے والا، بلوچی یا کوئی بھی مارا گیا ہے ان کی قاتل عدالتیں ہیں جو انصاف فراہم نہیں کرتیں، سب سے بڑے قاتل وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار کے لیے استعمال کیا۔
’یہ اسمبلی ہماری آواز کو نہیں سنتی تو اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے استعفے سے 65ہزار ووٹرز ناراض ہوں گے لیکن ان سے معافی مانگتا ہوں۔ پارلیمنٹیرین نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے۔
سردار اختر مینگل نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 75 سالوں سے آپ کو سمجھا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آرہی، بلوچستان کے حالات کی نشاندہی کئی سال پہلے کرچکا ہوں لیکن کسی کو پرواہ نہیں ہے، اس ریاست سے، اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکا ہوں۔
’محمود خان اچکزئی اس امید سے ہیں کہ شاید ان کو اس پارلیمنٹ سے کچھ ملے گا‘۔
یہ بھی پڑھیں: عوام کو من پسند نمائندے چننے کا حق دیا جائے، اختر مینگل
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ملک کے ہر ادارے کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی، ہم کہاں جائیں اور کس کا دروازہ بجائیں، آئین کے بنانے والے نا خود کو بچا سکے اور نا آئین کو بچا سکے، 4 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل کے پاس آجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو محمود خان اچکزئی کو تحفظ آئین کا چیئرمین بنا دیا جاتا ہے، آج ہم یہاں کھڑے ہیں لیکن ہماری آواز ہی نہیں سنی جا رہی۔ اسمبلی میں بولنے کا حق ہی نہیں دیا جاتا، پھر ہمارا اس اسمبلی میں رہنے کا فائدہ کیا ہے، اسی لیے آج اس ایوان سے استعفے کا اعلان کرتا ہوں۔