خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا گنڈاپور گروپ طویل عرصے سے سرگرم ہے، لیکن حالیہ چند مہینوں میں اس گروپ کی جانب سے خلاف کھل کر کارروائیوں نے اس کی طاقت کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔
ڈی آئی خان میں گزشتہ چند ماہ میں چند بڑے واقعات ہوئے، جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ ان کے پیچھے گنڈاپور گروپ کا ہاتھ ہے، جبکہ پہلے چھوٹے واقعات اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں تک محدود ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: افغان خارجی کا پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کا اعتراف
چند روز قبل ڈی آئی خان کے علاقے کلاچی سے مسلح افواج کے حاضر سروس افسر کو دو بھائیوں اور بھتیجے سمیت اغوا کیا گیا، اغوا ہونے والوں میں شامل ان کا ایک بھائی اسسٹنٹ کمشنر بھی تھا، اغوا کاروں کی جانب سے مبینہ طور پر ان کی رہائی کے لیے بڑے مطالبات کیے گئے۔
سی ٹی ڈی نے اغوا کے واقعے کی ایف آئی آر میں علاقے میں سرگرم مسلح گروپ گنڈاپور کو نامزد کیا ہے، جبکہ اغوا ہونے والوں کی رہائی مقامی جرگے کی مدد سے ممکن ہوسکی تھی، آئی ایس پی آر کے مطابق مذکورہ مغویوں کی رہائی غیرمشروط ہوئی ہے، تاہم حکومتی سطح پر اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور، گورنر فیصل کریم کنڈی اور آئی جی پولیس اخترحیات گنڈاپور کا تعلق بھی ڈی آئی خان سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغان سرزمین کا استعمال، ناقابل تردید شواہد ایک بار پھر منظرعام پر
اغوا اور دہشتگردی کے واقعات
سرکاری افسران کے اغوا کا واقع کوئی پہلا واقع نہیں ہے، ڈی آئی خان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران ایسے واقعات پے درپے پیش آرہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جج کو اغوا کیا گیا جو بعد میں رہائی کے بعد گھر واپس پہنچ گئے تھے، جبکہ ٹانک سے ڈی آئی خان آنے والے ججز کے قافلے پر ڈی آئی خان کی حدود میں حملہ ہوا تھا جس میں 2 پولیس اہلکار شہید ہو گئے تھے، جبکہ ڈی آئی خان میں ہی بینک کے لیے کیش لے جانے والی گاڑیوں پر حملے ہوئے اور اہلکاروں کو اغوا کیا گیا۔
حکومت کی جانب سے ان تمام واقعات پر مکمل خاموشی ہے، اس کے پیچھے کون ہے اور ان کے خلاف کیا کارروائیاں ہو رہی ہیں؟ کوئی کچھ بتانے کو تیار نہیں ہے۔ تاہم کچھ اندرونی باخبر زرائع بتا رہے ہیں کہ ان تمام واقعات میں گنڈاپور گروپ کا ہاتھ ہے جو اب حکومت سے بھی کھل کر تاوان کی رقم اور گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، ٹی ٹی پی خوارج کا کمانڈر کئی دہشتگردوں سمیت گرفتار
گنڈاپور گروپ اور اس کی طاقت کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے گنڈاپور قبیلے سے حوالے سے مختصر بات کرتے ہیں جو ڈی آئی خان میں آباد ہے۔
گنڈاپور قبائلی قبیلہ ہے جو ڈی آئی خان میں آباد ہے، گنڈاپور قبیلے کا گڑھ ڈی آئی خان کی کلاچی تحصیل ہے، جہاں گنڈاپور گروپ فعال ہے، ڈی آئی خان ایک طرف پنجاب، دوسری جنوبی وزیرستان اور بلوچستان سے محتصل ہے۔
ڈی آئی خان دہشتگردوں کا گڑھ کیوں؟
تجزیہ کاروں کے مطابق ڈی آئی خان دہشتگردوں کا گڑھ بنا ہوا ہے اور آئے روز وہاں واقعات ہوتے ہیں جو اس علاقے میں ان کی بڑے پیمانے پر موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں۔
رفعت اللہ اورکزئی تجزیہ کار ہیں اور طالبان امور کے ماہر ہیں، انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ ڈی آئی خان میں 2004 سے جب پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں ہورہی تھی، دہشتگرد اور مسلح گروپ موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کی قیادت میں ملک سے دہشتگردی کو ختم کردیں گے، وزیراعظم
ان کے مطابق ڈی آئی خان ان دہشتگردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے، ساتھ ہی یہ علاقہ مشکل وقت میں وہاں سے نکلنے کے لیے بہت آسان ہے، ’ڈی آئی خان 4 سے زائد جگہوں پر جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور پنجاب سے لگا ہے اور وہاں سے بھاگنا دہشتگردوں کے لیے بہت آسان ہے۔ ‘
رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ ڈی آئی خان کے نواحی علاقے کافی پسماندہ ہیں اور وہاں ان گروپس کے لیے سرگرم ہونا کافی آسان ہے، گنڈاپور گروپ بھی کلاچی میں سرگرم ہے اور پورے علاقے میں کارروائیاں کرتا ہے۔
گنڈاپور گروپ اچانک اتنا طاقتور کیسے ہوگیا؟
خیبرپختونخوا کے ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کے ضلع میں دہشتگردوں کی کارروائیوں سے حکومت حلقوں میں بھی بے چینی ہے، انہوں نے بتایا کہ جو رپورٹس آرہی ہیں اس کے مطابق یہ گروپ راتوں کو سڑکوں پر ناکے بھی لگاتا ہے، جس سے مسافر بھی خوف کا شکار ہیں، یہ دہشتگرد سرکاری حکام کو بھی نشانہ بناتے ہیں، کچھ عرصے سے اس گروپ نے کھلم کھلا حکومت اور اداروں کو چیلنچ کرنا شروع کر دیا ہے، جو ان کے طاقتور ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کو انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیدیا
تجزیہ کار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق طالبان اس علاقے میں ابھی نہیں آئے بلکہ شروع دن سے ہی یہاں موجود ہیں۔ ’طالبان کے بانی لوگوں میں کچھ لوگ انہی علاقوں سے بھی تھے، اسی وجہ سے ڈی آئی خان اور دیگر جنوبی اضلاع میں طالبان کی مظبوط موجودگی اب بھی ہے‘
انہوں نے بتایا کہ گنڈاپور گروپ کے طاقت میں اضافے میں افغان طالبان کا بھی لنک ہے، افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد بڑی تعداد میں طالبان پاکستان آئے، ان میں زیادہ تعداد ڈی آئی خان سمیت دیگر جنوبی اضلاع میں سرگرم گروپس میں شامل ہوئی تو ان کی طاقت بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک، دو سال پہلے لکی مروت میں سرگرم ٹیپو گروپ نے طالبان کے ساتھ شمولیت کی تھی جس سے یہ گروپ بہت زیادہ طاقتور ہوگیا ہے، اس سے حکومت کے لیے تشویشناک صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے سینیٹر دوست محمد نے عمران خان کو دہشتگردی کا ماہر قرار دیدیا
رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ ڈی آئی خان سمیت دیگر جنوبی اضلاع میں طالبان کی مضبوط موجودگی کا اندازہ دہشتگردوں کی کارروائیوں سی بھی لگایا جاسکتا ہے جو انہی اضلاع میں سب سے زیادہ ہوئی ہیں۔
رواں سال میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں
خیبرپختونخوا میں رواں سال کے8 ماہ میں انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز ( آئی بی اوز) کے دوران کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) اور حافظ گل بہادر گروپ کے 413 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے، کالعدم تنظیموں کے خلاف 14اضلاع میں 882 انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز کے نتیجے میں انتہائی مطلوب 413 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
ماہ اگست میں67 ، جولائی میں 49 ، جون میں 39 ، مئی میں 55 ، اپریل میں55 ، مارچ میں 52 ، فروری میں 55 اور جنوری میں 41 شدت پسندوں کو مارا جا چکا ہے، شمالی وزیرستان میں 126 ، خیبر میں 61 ، ڈیر اسماعیل خان میں57، ٹانک میں33 ، لکی مروت میں 30 ، جنوبی وزیرستان میں 22 ، ضلع کرم 22، بنوں میں 21 ، باجوڑ میں 11، پشاور10، ضلع دیر 8 ، سوات میں 7، کوہاٹ 3 اور مردان میں 2 شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی کے تانے بانے ’را‘ سے ملتے ہیں، گورنرسندھ
ماہ اگست میں سیکیورٹی فورسز نے122 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران 15 آپریشنز میں شدت پسندوں کو ہلاک کیا، سیکیورٹی اعداد و شمار کے مطابق میں ضلع خیبر میں 3 آپریشنز کے دوران 30 شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے ، ضلع کرم میں 2 آپریشن کے دوران 19 ،ضلع ڈی آئی خان میں 3 آپریشنز میں 7 ، ،ضلع سوات میں ایک آپریشن میں 4 ، جنوبی وزیرستان میں 3 آپریشنزمیں 3 ،ضلع بنوں میں ایک آپریشن کے دوران 2، ضلع ٹانک اور شمالی وزیرستان میں ایک ایک آپریشن کے دوران ایک ایک شدت پسند کو ہلاک کیا جاچکا ہے ۔
ماہ جولائی میں سیکیورٹی فورسز نے 120 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران 14 آپریشنز کیے، شمالی وزیرستان میں 4 آپریشنز کے دوران 13 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا، ضلع بنوں میں ایک آپریشن کے دوران 10 شدت پسندوں، ضلع دیر میں 3 آپریشنز میں 8 ، ضلع خیبر میں ایک آپریشن میں 7 ، ڈیر اسماعیل خان میں 2 آپریشنزمیں 4 ، جنوبی وزیرستان اور پشاور میں ایک ، ایک آپریشن میں 3،3 اور باجوڑ میں ایک آپریشن کے دوران ایک شدت پسند کو ہلاک کیا گیا۔
جون میں سیکیورٹی فورسز نے 39 شدت پسندوں کو انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے دورن ہلاک کیا، جس میں سب سے زیادہ ضلع لکی مروت 15 ، شمالی وزیرستان میں 8 ، ضلع خیبر میں 5 ، ضلع بنوں میں 4، ضلع کرم میں 3، ضلع جنوبی وزیرستان اور ضلع باجوڑ میں 2,2 شدت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: ناراضی کے نام پر دہشتگردی قبول نہیں، نوجوان ہر قسم کی انتہاپسندی کو مسترد کردیں، اسحاق ڈار
مئی میں سیکیورٹی فورسز نے55 شدت پسندوں کو انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران ہلاک کیا جس میں سب سے زیادہ ضلع ٹانک میں 15، شمالی وزیرستان میں 13، ضلع خیبر اور پشاور میں 7,7 ،ڈیرہ اسماعیل خان میں 6 ، ضلع باجوڑ اور لکی مروت میں 3,3 اور جنوبی وزیرستان میں 1 کو ہلاک کیا کیا گیا، جبکہ 7 شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اپریل میں سکیورسٹی فورسز نے 22 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران 55 شدت پسندوں کو مارا جس میں سب زیادہ ضلع شمالی وزیر ستان میں 18، ڈیرہ اسماعیل خان میں 17،ضلع خیبر 8، ضلع ٹانک میں 5 ،ضلع جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں 3,3 اور سوات میں 1 شدت پسند کو ہلاک کیا گیا، جبکہ 6 شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
مارچ کے دوران 18آپریشن کے دوران 52 شدت پسندوں کو مارا گیا، شمالی وزیرستان میں سب سے زیادہ 35 شدت پسند ہلاک کیے گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں 3 آپریشنز کے دوران 6، لکی مروت میں 2 آپریشن کے دوران 6 شدت پسند مارے گئے، کوہاٹ میں ایک آپریشن کے دوران 3اور باجوڑ میں 2 آپریشن کے دوران 2 شدت پسندوں ہلاک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: باجوڑ میں بم دھماکا، سابق سینیٹر سمیت 3 افراد جاں بحق
فروری میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف 102 انٹیلجنس بیسڈ آپریشن ہوئے، جس دوران 55 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف 6 آپریشنز کے دوران 16 شدت پسندوں کو ہلاک کیا، ڈیرہ اسما عیل خان میں 4 آپریشنز میں 12، ضلع ٹانک میں 3 آپریشنزمیں 12 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا، جنوبی وزیرستان میں 2 آپریشنز میں 8، ضلع خیبر میں 3 اورسوات اور مردان میں بالترتیب 2،2 شدت پسند وں کو ہلا ک کیا گیا۔
جنوری میں خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں شدت پسندوں کے خلاف 122 انٹیلجنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جس کے نتیجے میں 41 شدت پسند ہلا ک ہوئے۔ سب سے زیادہ شمالی وزیرستان میں 5 آپریشنز کے دوران 22 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: رحیم یار خان راکٹ حملہ: پنجاب پولیس کی جوابی کارروائی میں مرکزی ملزم ہلاک
لکی مروت میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے 3 آپریشنز میں 6 شدت پسند ہلاک کیے گئے، ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے آپریشن میں 5 شدت پسند ہلا ک ہوئے،جنوبی وزیرستان میں 4، بنوں میں 3 اور ضلع خیبر میں ایک شدت پسند کو ہلاک ہوا۔
882 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کے دوران سیکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے قبضے سے 284 پستولیں، 14 بینڈولیئر ،9 ہزار318 بندوقیں، 4 ہزار776ایس ایم جیز، 3 ہزار903 بھاری مشین گنز، 4 ہزار360 متفرق بارود،39 دستی بم ، 28 راکٹ لانچرز اور 18 دستی بمز برآمد ہوئے۔