کراچی کے علاقے کارساز میں جان لیوا ٹریفک حادثے میں گرفتار خاتون ڈرائیور اور ہلاک شدگان کے ورثا کے مابین راضی نامے کے بعد ملزمہ نتاشا دانش کی ضمانت منظور کرلی گئی ہے تاہم منشیات کے مبینہ استعمال سے متعلق ایک دوسرے مقدمے میں ان کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔
کراچی کے علاقے کارساز روڈ پر 19 اگست 2024 کو ملزمہ نتاشا دانش نے ٹریفک حادثے میں موٹرسائیکل سوار عارف اور ان کی بیٹی آمنہ کو اپنی گاڑی سے کچل کر ہلاک کردیا تھا، ملزمہ کے وکیل نے عدالت میں اپنی مؤکل کو نفسیاتی مریض ثابت کرنے کی کوشش تھی جسے ڈاکٹر نے مسترد کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کارساز حادثے میں جاں بحق عمران عارف اور آمنہ عارف کے ورثا کو کتنی رقم ملی؟
ذرائع کے مطابق اس مقدمے میں قصاص اور دیت کے قانون کا سہارا لیتے ہوئے مقتولین کے ورثا کو معاوضے کی مد میں مبینہ طور پر ساڑھے 5 کروڑ روپے سے زائد رقم دیت کی مد میں ادا کی ہے، یوں تو عدالتی ریکارڈ اس ضمن میں معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرتے تاہم دیت کے نام پر رقم کی ادائیگی مبینہ طور پے آرڈر کے ذریعے کی گئی ہے۔
اس حالیہ واقعہ نے گزشتہ کئی روز سے شہریوں سمیت میڈیا کی توجہ حاصل کررکھی ہے، بیشتر لوگوں کا خیال یہی تھا کہ اس مقدمہ میں بھی معافی یا راضی نامہ ہوجائے گا اور ورثا دیت کی مد میں ملنے والی رقم پر اکتفا کرلیں گے اور ہوا بھی یہی، کیونکہ ملک بھر میں اس نوعیت کے جان لیوا واقعات میں یہی ہوتا رہا ہے۔
قصاص اور دیت کا قانون کیا ہے؟
پاکستان میں فوجداری قوانین کی اسلامائزیشن کا عمل 1979 میں جنرل ضیاء الحق کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد شروع کردیا گیا تھا لیکن 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے قصاص و دیت آرڈیننس کے ذریعے ملک میں قصاص اور دیت کے قوانین متعارف کروائے جسے بعد میں 1997 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں پارلیمنٹ سے منظور کروا کر بطور پارلیمانی ایکٹ فوجداری قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔
قصاص اور دیت کے قانون کے مطابق مجرم کی سزا کے تعین کا حق، ایک معقول حد کے اندر، جرم سے متاثرہ شخص کے پاس ہوتا ہے، قتل کی صورت میں یہ حق متاثرہ شخص کے لواحقین کو تفویض ہوجاتا ہے، اگر وہ شخص یا اس کے لواحقین چاہیں تو مجرم سے قصاص کے مطابق برابر کا بدلہ لے سکتے ہیں، جو کہ قتل کی صورت میں سزائے موت ہے۔
مزید پڑھیں: نتاشا دانش کو جیل میں کون کون سی سہولیات فراہم کی گئی ہیں؟
دوسری صورت میں اگر وہ شخص یا اس کے لواحقین چاہیں تو دیت کی رقم کے بدلے یا پھر اس کے بغیر بھی اس جرم کو معاف کر سکتے ہیں، ملکی قوانین کے مطابق عدالت متاثرہ شخص یا لواحقین کی معافی کے باوجود مجرم کو فساد فی الارض کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے اس کو لواحقین کی معافی کے باوجود قید سزا دے سکتی ہے، لیکن ایسا عام طور پر نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں کراچی میں ہی 2012 کا ایک واقعہ ناقابل فراموش ہے جس میں نوجوان شاہ زیب خان کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے تلخ کلامی کے بعد قتل کردیا تھا، اسی طرح لاہور میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے 2 موٹر سائیکل سواروں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، جنہیں سفارتکار ہونے کے ناطے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بالآخر دیت کے قانون کے تحت ہی ان کی متنازع رہائی ممکن ہوسکی۔
شاہ زیب قتل کیس
شاہ زیب خان کو 24 دسمبر 2012 کی شب کراچی کے علاقے ڈیفنس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا، 2017میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت صلح نامے کے بعد شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا، جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔
فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے بعد سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اس مقدمے میں ملوث چاروں مجرموں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کارساز حادثہ: نتاشا کا برطانوی لائسنس پاکستان میں ناقابل قبول نکلا
اس کیس میں ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ نواب سجاد غلام مرتضٰی کو عمر قید سنائی گئی تھی، سندھ ہائی کورٹ نے مارچ 2019 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت چاروں ملزمان کو عمر قید سنا دی تھی۔
ملزمان نے عمر قید کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں، دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ملزمان کیخلاف عائد انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات ختم کرتے ہوئے اکتوبر 2022 میں ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس مقدمہ میں ملزمان کی جانب سے مقتول شاہ زیب کے لواحقین کو قصاص اور دیت کے قانون کے تحت راضی نامہ کے مطابق آسٹریلیا میں فلیٹ سمیت 35 کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے، راضی نامہ کی اصل تفصیل سامنے نہیں لائی گئیں جبکہ رقم کی ادائیگی کا کوئی ریکارڈ بھی دستیاب نہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کیس
لاہور میں تعینات امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے 27 جنوری 2011ء کو مزنگ لاہور کی سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے دو موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کو گولی مار کر قتل کردیا تھا، اس موقع پر ریمنڈ ڈیوس کی جانب سے مدد کی درخواست پر موقع پر پہنچنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی کی ٹکر سے ایک اور موٹر سائیکل سوار بھی ہلاک ہوگیا۔
مزید پڑھیں: ’وہی ہوا جس کا ڈر تھا‘ کارساز حادثہ میں فریقین میں معاملات طے پانے پر صارفین کا ردعمل
گرفتاری کے بعد ریمنڈ کا موقف تھا کہ ان میں سے ایک نوجوان نے اس پر پستول لہرایا تھا، دوسری جانب سے امریکی سفارت خانہ نے دعویٰ کیا کہ ریمنڈ ڈیوس امریکی سفارت کار ہے لہذا اسے گرفتار یا سزا نہیں دی جا سکتی، اس مقدمہ کی ابھی عدالت میں سماعت جاری تھی کہ 16 مارچ کو مقتولین کے ورثاء کی جانب سے مبینہ طور پر 2 ملین ڈالر دیت کے وعدہ پر معافی نامہ پیش کردیا جس پر عدالت نے ریمنڈ ڈیوس کو بری کر دیا۔
مبصرین نے اس مقدمہ کے اچانک فیصلہ کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں، امریکا اور عدالت کے منصف کے درمیان پہلے سے طے شدہ ڈراما قرار دیا ہے جس کا ریاستی اور شرعی قانون سے کوئی تعلق نہیں۔
پروفیسر میاں انعام الرحمن کے مطابق امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کا مقدمہ اس قرآنی حکم کے مطابق طے کیا جانا چاہیے تھا جس کے مطابق مظلوم مقتول کے ولی کو ’سلطان‘ قرار دیتے ہوئے معاشرتی و ریاستی طاقت اس کی پشت پر کھڑی کردی گئی ہے تاکہ ولی قصاص یعنی بدلہ لازماً لے سکے لیکن اسراف کا مظاہرہ نہ کر سکے۔