چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم پارلیمان میں آمریت نہیں مانتے تو سپریم کورٹ میں کسی کی آمریت کو کیسے تسلیم کریں گے۔
نوڈیرو میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کو آئینی بحران سے نکالنے کے لیے عدالت لارجر بینچ بنائے سوائے ان دو ججز کے جو اپوزیشن کے ساتھ بات کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن التوا کے معاملے پر اگر کوئی بدنیتی نہیں ہے تو لارجر بینچ بنانے میں کیا مسئلہ ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 3 ججوں کی انا کی وجہ سے پاکستان میں آئینی بحران پیدا ہورہا ہے اور وہ ہمیں خطرناک راستے پر لے کر جا رہاہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال پاکستان کو بچائیں کیوں کہ ہمیں خدشہ ہے کہ تخت لاہور کی لڑائی پورے پاکستان کو لے ڈوبے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور اس کے علاوہ سیکیورٹی کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان غلط فہمی سے نکلیں اگر آئینی بحران جاری رہا تو پھر ہمارے سمیت کوئی اور بھی نہیں رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ طاقت نشے میں لڑائیاں لڑنے کے بجائے پاکستان کے اصل مسائل کے حل کی طرف آنا ہوگا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم سارے اسٹیک ہولڈرز کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے اداروں کو بچانا ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو آئین اور ایٹم بم کا تحفہ دیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں پوچھتا ہوں کہ آج کوئی مولوی مشتاق کو بھی یاد کرتا ہے۔اس کی برسی بھی ہوتی ہے یا نہیں اور اس کے علاوہ کسی کو یاد ہو کہ انوار الحق کون ہے اور کہاں دفن ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ تاریخ نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو آج بھی زندہ ہے لیکن اس کے خلاف فیصلہ سنانے والے دفن ہوگئے اور آج کوئی نام لینے والا نہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے تو 90 ہزار قیدیوں کو رہائی دلوائی اور وہ پوری مسلم امہ کے لیڈر تھے۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کیس پر صدر زرداری نے 2012 میں ریفرنس بھیجا تھا کہ ہمیں انصاف دیا جائے اور 2018 میں میں خود بھی عدالت میں گیا۔
بلاول بھٹو نے کہا ذوالفقار علی بھٹو نے جن جن لوگوں کو حقوق دلوائے گئے تھے ان کے حقوق سلب کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہماری عدالتیں کب کب تاریخ کی غلط سمت پر کھڑی ہوئیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جب بینظیر بھٹو کی حکومت آنے سے جمہوریت بحال ہوئی تو صرف 11 ماہ تک اس حکومت کو چلنے دیا گیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ 1996ء میں جب ایک بار پھر بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت ہم عدالت میں چلے گئے کہ حکومت بحال کی جائے لیکن عدالت نے خلاف فیصلہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے آئین توڑا تو ہم نے یہ پوچھا کہ یہ فیصلہ درست ہے یا غلط تو عدلیہ نے ایک آمر کے حق میں فیصلہ دیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آصف زرداری 11 سال تک جیل میں رہے تو کیا ہمیں کسی نے بتایا کہ ایسا کیوں کِیا گیا اور مشرف نے تو ایک بار معافی مانگی کہ مجھ سے غلطی ہوئی اور اس معافی کو این آر او کا نام دیا گیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ افتخار چوہدری نے ملک میں اپنا قانون بنایا ہوا تھا اور اس کو ہیرو بنا کر ہم نے جوڈیشری کو تباہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کیا تو اسے ڈکٹیٹر مشرف نظر ہی نہیں آیا اور ہمارے خلاف ہی فیصلہ سنایا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریک انصاف کی الیکشن مہم چلائی اور دھاندلی میں ملوث رہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ایک ہی مطالبہ ہے لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے ہم الیکشن کے لیے تیار ہے کیوں کہ ہم اب کسی کو دھاندلی کی اجازت نہیں دیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کے عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وزیراعظم کون بنے گا یہ کسی جج کا کام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کو فلور کراسنگ نظر آ گئی تو جب ہم چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لے کر آئے تو زبردستی فلور کراسنگ کرائی گئی اور عدالت نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ تخت لاہور کی جب باری آئی تو کسی سے وعدہ پورا کرنے کے لیے آئین توڑا گیا اور پی ڈی ایم سے حکومت چھین کر پرویز الٰہی کو دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں جو کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔عدالت یہ کیسے کر سکتی ہے کہ آپ کا ووٹ بھی نہیں گنا جائے گا اور آپ نااہل بھی ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر ایک بار پھر حکومت سے مطالبہ کریں گے ہمیں انصاف دلایا جائے۔