خیبر پختونخوا میں امن و امان کے بڑھتے ہوئے مسائل، قصور وار کون؟

پیر 23 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سوات پولیس کے ایک اہلکار ایوبی (فرضی نام) اتوار کو معمول کے مطابق تھانہ پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ایک وی آئی پی موومنٹ ہے جہاں ڈیوٹی کے لیے وقت پر پہنچنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ وی آئی پی موومنٹ کی جگہ پہنچے لیکن انہیں کچھ نہیں بتایا گیا کہ کون آ رہا ہے، کنتے لوگ ہیں، کہاں جانا ہے اور انہیں کس نوعیت کی سیکیورٹی چاہیے۔ موقع پر پہنچنے کے بعد پتا چلا کہ غیر ملکی سفیر ہیں اور سوات گھومنے آئے ہیں۔

اتوار کو غیرملکی سفیروں کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟ 

سوات چیمبر آف کامرس کی دعوت پر پاکستان میں تعینات 12 ممالک کے سفیر سوات آئے تھے اور منگورہ میں تقریب میں شرکت کے بعد سیاحتی مقام مالم جبہ جا رہے تھے کہ راستے میں جہاں آباد کے مقام پر دھماکا ہوا جس کی زد میں سیکیورٹی پر مامور پولیس موبائل وین آ گئی اور ایک پولیس جوان شہید جبکہ 4 زخمی ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں:مالم جبہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکا، ایک پولیس جوان شہید، 3 زخمی

دفتر خارجہ کے مطابق واقعے میں مہمان محفوظ رہے اور بحفاظت واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ واقعے کے بعد تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں ساتھ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے 12 ممالک کے سفیروں کی سیکیورٹی ایک تھانے دار کے ذمے ہی کیوں لگائی گئی، کیا سیکیورٹی کے لیے پہلے سے کوئی پلاننگ کی گئی تھی اور کیا پولیس کو ایسے وی وی آئی پیز کی ڈیوٹیز کے لیے جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دی جاتی ہے؟

سوات چیمبر آف کامرس نے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن اور آرپی او کو معطل کرنے اور ان کیخلاف انکوائری کا مطالبہ کر دیا ہے۔ چیمبر آف کامرس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 12 ممالک کے سفیروں کو مناسب سیکیورٹی نہ دینے کی وجہ سے واقعہ رونما ہوا جس کی ذمہ داری کمشنر ملاکنڈ ڈویژن، آر پی او ملاکنڈ ریجن اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:مالم جبہ دھماکا: سی ٹی ڈی نے مقدمہ درج کرلیا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے رپورٹ طلب کرلی

انڈونیشیا، پرتگال، قازقستان، بوسنیا، زمبابوے،روانڈا، ترکمانستان، ویتنام، ایتھوپیا، ایران، تاجکستان اور روس کے سفیروں کے قافلے پر یوں حملہ سوالیہ نشان ہے۔

سفیروں کے لیے سیکیورٹی انتظامات

خیبر پختونخوا کے پولیس حکام سفیروں کی سیکیورٹی پر مامور پولیس وین کو نشانہ بنائے جانے کے واقعے پر کوئی بات کرنے لیے تیار نہیں۔ ڈی پی او سوات اور ریجنل پولیس افسر مالاکنڈ فون کال کا جواب نہیں دے رہے۔

سوات پولیس کے اہلکار ایوبی کو کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ مینگورہ بائی پاس روڈ پر تقریب میں گئے اور پھر وہاں سے مالم جبہ کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں یہ واقعہ پیش آیا۔

یہ بھی پڑھیں:خیبرپختونخوا میں دہشتگرد حملے، کتنی جانیں ضائع ہوئیں؟

ذرائع کے مطابق غیر ملکی سفیروں کی سیکیورٹی کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور 12 ممالک کے سفیروں کی سیکیورٹی پر صرف ایک پولیس موبائل وین مامور تھی اور تمام سیکیورٹی امور کو صرف انسپکٹر (تھانے دار ) دیکھ رہا تھا۔

ذرائع کے مطابق پولیس معمول کے مطابق روڈ کو کلیئر کرکے آگے جا رہی تھی صرف اتنا ضرور تھا کہ کوئی بھی پیشگی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔

کیا خیبر پختونخوا پولیس وی وی آئی پی سیکیورٹی کے لیے تیار ہے؟

خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے خلاف پولیس فرنٹ لائن پر ہے۔ پولیس پر پے در پے حملوں کے بعد حکام پولیس کی تربیت پر بھی توجہ دے رہے ہیں اور دہشتگردی کے واقعات اور دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی یونٹس بھی قائم کیے گئے ہیں اور جدید تقاضوں کے مطابق تربیت بھی دی جارہی ہے۔

پولیس فورس خصوصی آپریشن یا دہشتگردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے فرنٹ پر ہوتی ہے۔ لیکن پولیس تربیت سے باخبر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پولیس کو وی وی آئی پیز کی سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی خصوصی تربیت نہیں دی جاتی یا پھر پولیس ایسی ڈیوٹیز کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : بنوں چھاؤنی حملہ: افغانستان ذمہ داروں کے خلاف فوری، مضبوط اور مؤثر کارروائی کرے، پاکستان

طارق وحید پشاور کے سینیئر صحافی ہیں اور دہشتگردی اور سیکیورٹی امور پر گہری  نظر رکھتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کو دہشتگردی سے نمٹنے اور آپریشنز کے لیے خصوصی طور پر تربیت دی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ صوبے میں دہشتگردی اور پولیس پر مسلسل حملوں کے بعد سے شروع ہے۔

طارق وحید کا ماننا ہے کہ پولیس کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت کی بھی ضرورت ہے۔

زاہد امداد پشاور کے کرائم رپورٹر ہیں اور پولیس کے معمولات کو قریب سے دیکھتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو وی وی آئی پیز کی سیکیورٹی ریگولر پولیس کا کام یا بس کی بات نہیں ہے۔ ’ہماری پولیس وی وی آئی پیز کی ڈیوٹی کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ اہلکار بس اسلحہ کندھے میں ڈال کر کھڑے ہوتے ہیں’۔

زاہد کے مطابق وی آئی پیز کی ڈیوٹی کے لیے چوکس اور تیز ہونا چاہیے، ہر طرف نظریں ہونی چاہییں۔ ’اصل میں ٹیم لیڈر کا کردار اہم ہوتا ہے، ایک تھانیدار کو آپ اتنی اہم سیکیورٹی کی ذمہ داری دیں گے تو وہ کیسے نبھائے گا‘۔

مزید پڑھیں : لکی مروت میں کار پر حملہ، پولیس اہلکار 3 بھانجوں سمیت شہید

ان کا کہنا ہے کہ ایسے موقعوں پر خصوصی طور اچھے اور تیز آفیسر کی ڈیوٹی ہونے چاہیے جو بہتر طریقے سے حالات کو ہینڈل کرے۔

طارق وحید کے مطابق دہشتگرد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں اور کچھ دن پہلے ہی سوات کی ایک چوکی پر موبائل گیم کی مدد سے حملہ کیا گیا، جس کے بارے میں پولیس کو معلومات نہیں تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب جدید اسلحے سے بھی زیادہ ضرورت جدید ٹیکنالوجی اور تقاضوں کے مطابق تربیت کی ضرورت ہے جس پر پولیس کی توجہ نہیں ہے۔

تعاون کا فقدان

سینیئر صحافی طارق وحید سوات واقعے کو سیکیورٹی کی کوتاہی سے زیادہ تعاون کا فقدان قرار دےرہے ہیں۔ ان کے مطابق شانگلہ میں چینی انجینیئر پر حملے سمیت بڑے واقعات میں تعاون کا فقدان سامنے آیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شانگلہ میں چینی انجینیئرز پر حملے کی رپورٹ میں بھی سیکیورٹی اداروں کے درمیان عدم تعاون کی نشاندہی کی گئی ہے اور سوات واقعے میں بھی مجھے یہی لگ رہا ہے۔ ’حکومتی رابطے کا طریقہ کار بہت پرانا ہے، ناکامی کی صورت میں ذمہ داری دوسرے پر ڈالی جاتی ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ٹیلی فون پر ہی بتایا جاتا ہے کہ فلاں دن وی آئی پیز آرہے ہیں جس کے لیے بس سیکیورٹی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کون آ رہا ہے، کہاں جا رہا ہے؟۔ کس نوعیت کی سیکیورٹی اور کون لیڈ کرے گا؟ کچھ منصوبہ بندی نہیں ہوتی، نتیجتاً ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس سے پوری دنیا میں بدنامی ہوتی ہے۔

اتنے بڑے واقعے کا ذمہ دار ایک تھانیدار یا پولیس اہلکار کیسے؟

طارق وحید نے سوال اٹھایا کہ کیا 12 ممالک کے سفیر ایک ساتھ بغیر پوچھے سوات روانہ ہوئے تھے۔ یقیناً اس کی اطلاع سیکیورٹی سمیت کئی دوسرے اداروں کو ہوئی ہو گی۔ انہوں نے بتایا محکمہ خارجہ، داخلہ، صوبائی حکومت، حساس ادارے، پولیس اور مقامی انتظامیہ سب ایسے دوروں سے باخبر ہوتے ہیں اور سیکیورٹی ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اتنے اہم دورے پر چند اہلکاروں کی ڈیوٹی لگا کر پولیس کو ذمہ دار ٹھہرانا نا انصافی ہو گی۔

انہوں نے بتایا کہ اہم سیکیورٹی منصوبہ بندی کے وقت پولیس کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور نہ ہی ایسے وقت کے لیے پولیس کو تیار کیا جاتا ہے، لیکن جب کوئی واقعہ ہو جاتا ہے تو پولیس کو آسانی کے ساتھ ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس ہر موقع پر موجود ہوتی ہے، اس لیے آسانی سے ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے اور سوات واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا‘۔

سوات میں سیکیورٹی کی صورت حال

خیبر پختونخوا کے سیاحتی علاقے سوات میں گزشتہ کچھ ماہ سے دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شہزاد نوید کے مطابق گزشتہ کئی ماہ سے دہشتگردی کے واقعات کے باعث سوات کے داخلی اور خارجی راستوں پر ایک بار پھر پولیس چیک پوسٹس قائم کی گئی ہیں اور خفیہ معلومات پر چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ عرصہ پہلے مالم جبہ روڈ پر ہی پولیس چوکی پر حملہ ہوا تھا جبکہ مینگورہ میں بھی چوکی پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp