کیا اس بار شان مسعود کی قیادت پاکستانی ٹیم کے لیے کارآمد ثابت ہوگی ؟ سوال بہت گھمبیر ہے کیونکہ شان مسعود کی کپتانی میں کرکٹ ٹیم پہلے آسٹریلیا اور پھر بنگلہ دیش جیسی کمزور ترین ٹیم سے شکست کا داغ سہہ چکی ہے۔ وہی بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم جس کے خلاف بھارت نے صرف 2 دن میں ٹیسٹ میچ ختم کراکے کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ کل یعنی 7 اکتوبر سے ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا اور دوسرا ٹیسٹ میچ بھی ملتان میں 15 اکتوبر سے کھیلا جائے گا۔ جبکہ تیسرا اور آخری ٹیسٹ 24 اکتوبر سے راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔ بین اسٹوکس کی انجری کے سبب ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ میں انگلش ٹیم کی قیادت اولی پوپ کررہے ہیں۔ انگلش ٹیم کو پاکستان پر اس اعتبار سے برتری حاصل ہے کیونکہ 2022 میں جب انگلش ٹیم پاکستان آئی تھی تو تینوں ٹیسٹ میچز میں اُس نے پاکستانی ٹیم کو آؤٹ کلاس کردیا۔ یہ سیریز پاکستان بابراعظم کی کپتانی میں 3 صفر سے ہارا۔ انگلش کرکٹ ٹیم نے جس طرح برینڈن میکلم کے نئے ہیڈ کوچ بننے کے بعد اپنے کھیل میں جارحانہ حکمت عملی اختیار کی ہے تو امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے خلاف ایک مرتبہ پھر ماڈرن طرز کی کرکٹ کھیلی جائے گی جس سے پاکستانی ٹیم کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ سکتی ہیں۔
پاکستانی اسکواڈ میں کون کون ہے ؟
پاکستان کا 15 رکنی اسکواڈ شان مسعود(کپتان)، سعود شکیل(نائب کپتان)، عبداللہ شفیق، بابر اعظم، محمد ہریرہ، محمد رضوان (وکٹ کیپر) صائم ایوب، سلمان علی آغا، سرفراز احمد (وکٹ کیپر)، شاہین شاہ آفریدی، عامر جمال، ابرار احمد، میر حمزہ، نسیم شاہ اور نعمان علی پر مبنی ہے۔ خرم شہزاد کی جگہ نعمان علی کو قومی اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ خرم شہزاد فٹنس بحال نہیں کرسکے۔ اسپنر نعمان علی نے آخری ٹیسٹ جولائی 2023 میں کھیلا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نعمان علی کو اس لیے اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا کیونکہ بنگلہ دیش کے خلاف انہیں ” نامعلوم وجوہات ” کی بنا پر ٹیم سے دور رکھا گیا تھا جس کا خمیازہ پاکستان کو باصلاحیت اسپنر کی کمی کی صورت میں شکست سے ملا۔ ذرائع ابلاغ میں ٹیم سلیکشن پر کڑی تنقید ہوئی تو اب دل پر پتھر رکھ کر اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ حیران کن طور پر حالیہ قومی ون ڈے ٹورنامنٹ میں بہترین کھیل دکھانے والے کامران غلام اور محمد علی کو 15 رکنی اسکواڈ میں نہیں رکھا گیا۔ کامران غلام اور محمد علی بنگلہ دیش کےخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ تھے اور انہیں پریذیڈنٹ کپ میں اپنی ٹیموں کی نمائندگی جاری رکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ فاسٹ بولرعامر جمال کی قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں واپسی ہوئی ہے جبکہ خراب فارم کے باوجود عبداللّٰہ شفیق بھی 15 رکنی ٹیم میں جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ عوامی اور تجزیہ کاروں کے دباؤ کی وجہ سے نعمان علی کی طرح نوجوان بلے باز محمد ہریرہ کو بھی انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔
کپتان شان مسعود کی بڑی آزمائش
دیکھا جائے تو شان مسعود کے لیے یہ اہم اور فیصلہ کن سیریز بھی ہے کیونکہ آسٹریلیا اور پھر بنگلہ دیش کے خلاف شکست نے ان کی کپتانی پر برطرفی کی تلوار لٹکا دی ہے اور پھر قیادت کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد ان کی بیٹنگ کارکردگی بھی ایسی تسلی بخش نہیں کہ وہ ٹیم کی ناقص کارکردگی پر تنقید سے محفوظ رہیں۔ بدقسمتی سے شان مسعود پچ پر کھڑے ہو کر بحرانی صورتحال میں ٹیم کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہورہے۔ محض بہترین انگریزی بولنا ہی اصل قابلیت نہیں۔ شان مسعود جو کھیل برطانوی کاؤنٹی سیزن میں دکھاتے ہیں اس کی اب تک کسی بھی مرحلے پر کوئی جھلک نہیں ملی۔ عین ممکن ہے کہ اس سیریز میں ناکامی کی صورت میں شان مسعود کو کپتانی سے محروم کردیا جائے۔
بابراعظم 16 اننگز سے نصف سنچری سے محروم
حال ہی میں وائٹ بال فارمیٹ کی کرکٹ کی قیادت چھوڑنے والے بابراعظم کے لیے یہ سیریز خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ بابراعظم اچھا کھیلتے کھیلتے ایک غلط شاٹ کا انتخاب کرکے اپنی وکٹ گنوادیتے ہیں۔ ان کی بیٹنگ کارکردگی پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں۔ یہ بات بھی حیران کن اور دلچسپی سے خالی نہیں کہ بابراعظم نے آخری نصف سنچری انگلش کرکٹ ٹیم کے خلاف دسمبر 2022 میں بنائی تھی اس کے بعد انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئے 161 رنز کی زبردست باری کھیلی لیکن پھر 16 اننگز گزر چکی ہیں۔ بابراعظم سنچری اور نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہی نہیں ہوئے۔ اب ایسی کارکردگی کے باعث وہ پرستار جو انہیں ” کنگ ” تصور اور تسلیم کرتے ہیں وہ خود بابراعظم کی بیٹنگ سے مایوس ہوچکے ہیں۔ بیٹنگ میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے بھی بابراعظم ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس قدر نامی گرامی اور مشہور ہونے کے باوجود بابراعظم وہ “کلاس” نہیں دکھا پارہے جو ان سے توقع کی جارہی تھی۔
شاہین شاہ کی کاٹ دار بالنگ کب ؟
فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی پاکستانی بالنگ لائن کا اہم جُز تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن گزشتہ کئی ٹیسٹ میچز میں ان کی بالنگ میں وہ کاٹ اور تیزی نہیں آرہی جو کچھ برس پہلے ان کی شناخت تھی۔ کسی بھی فاسٹ بالر کے لیے کسی بھی اننگ میں آدھی ٹیم کو آؤٹ کرنا ایک بہت بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے لیکن شاہین شاہ آفریدی کی بالنگ تو بنگلہ دیشی یا سری لنکن بلے بازوں کے مقابل بھی اپنی دھاک نہیں بٹھا سکی۔ آفریدی کی بالنگ کے اعدادو شمار کا جائزہ لیں تو یہاں بھی مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ آفریدی نے بنگلہ دیش کے خلاف اننگ میں 5 یا اس سے زیادہ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا کارنامہ آخری بار 3 سال پہلے سرانجام دیا تھا۔ یہ ایک ورلڈ کلاس بالر ہونے کے دعوے دار کھلاڑی کے لیے لمحہ فکریہ ہی ہے۔
اسٹیورٹ براڈ کی پیش گوئی
سابق انگلش فاسٹ بالر اسٹیورٹ براڈ نے پیش گوئی کی ہے کہ ان کی ٹیم کا جارحانہ انداز پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کام کرجائے گا۔ ساتھ ہی وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ گرین شرٹس ان دنوں بہترین کرکٹ نہیں کھیل رہی لیکن اس کے باوجود اس کے خلاف ٹیسٹ سیریز ایک آسان چیلنج نہیں ہے۔ سابق فاسٹ بالر کہتے ہیں کہ اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو انگلش ٹیم کوتیز کھیلنا ہوگا جس سے پاکستانی ٹیم دباؤ میں آجائے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔