کچھ روز قبل شام ڈھلے گھرجاتے ہوئے سڑک کنارے رنگ برنگی روشنیوں سے سجا میلے کا سماں دیکھا تو دل و دماغ میں کئی گزرے زمانے ایک ساتھ روشن ہو گئے اور اس روشنی میں ایک ایسا دریچہ کھلا جس میں تین دہائی پرانامنظر پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔ گاڑی ایک طرف روکی تو کانوں میں میڈم نور جہاں کے پنجابی گانے کی رس بھری آواز پڑی اورمیں خیالوں میں فتح جنگ کے سائیں حاضر کے میلے میں پہنچ گیا۔
یہ لاہور کا پوش علاقہ ہے لیکن ان جدید بستیوں کے بیچ میں کئی دیہات اپنے مضافات ان رہائشی کالونیوں کے حوالے کر کےبھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے ان میں خاص کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہ بابا روشن شاہ ؒکے مزار پر منعقد ہونے والا سالانہ میلہ ہے۔ جوہر ٹاؤن کے پاس اور واپڈا ٹاؤن کے فیز 1 اور 2کے بیچ میں آباد یہ گاؤں پنڈ کھمبہ کہلاتا ہے۔ اس کے مشرق میں پنڈ کمہیار ہے جہاں اب ایک اور ماڈرن ہاؤسنگ سوسائٹی بن چکی ہے۔ جس جگہ اس وقت واپڈا ٹاؤن فیز 1 ہے یہ کبھی جعفر آباد گاؤں تھا۔ اس کے علاوہ قرب و جوار میں کالا جھاڑ، جھگیاں اور شادی وال نام کے گاؤں واقع ہیں۔ تھوڑا اندر کی طرف جائیں توپرانا گاؤں بھی موجود ہے۔ جھگیاں نام کے پاکستان میں بے شمار گاؤں ہیں۔ اس کی نسبت جھگی یعنی جھونپڑی سے ہے۔ ویسے تو ہر گاؤں ہر بستی کا آغاز کسی نہ کسی جھگی سے ہی ہوتا ہے لیکن بعد میں نام بدل جاتے ہیں۔ لاہور میں کئی بڑے میلے بھی منعقد ہوتے ہیں۔ داتا صاحبؒ، مادھولال حسینؒ اور شاہ جمال ؒ سمیت کئی مزاروں پر عرس اور میلے منعقد ہوتے ہیں، جن کی اپنی الگ شان ہے۔ لیکن بابا روشن شاہ کا یہ میلہ یوں منفرد تھاکہ اس میں عہد رفتہ کے میلوں جیسی سادگی دکھائی دی۔
فتح جنگ کا بھادوں کامیلہ جو یادوں میں تازہ ہوا، اسے مقامی لہجے میں ’بھدرے نا میلا‘ کہتے ہیں، یہ میلہ اگست کے مہینے میں منعقد ہوتا ہے۔ اس قبیل کےاکثرمیلے اگست اور ستمبر ہی میں منعقد ہوتے ہیں۔ بھادوں کایہ میلہ سائیں حاضر حضور کے دربار پر منعقد ہوتا ہے۔ جن دنوں ملک کے حالات ایسے نہیں تھے ان دنوں پاکستان بھر سے تھیٹراور سرکس مہینہ بھر قبل ہی اپنے خیمے گاڑنے شروع کر دیتے تھے۔ لکی ایرانی سرکس اور عالم لوہار کا تھیٹر ان میں سب سے نمایاں تھے۔ عالم لوہار کے تھیٹر میں پوری رات تھیٹر دیکھنا ایک یادگار تفریح تھی۔ تھیٹرمیں سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال وغیرہ جیسے معروف قصوں میں سے ہر رات کسی ایک کہانی پر ڈرامہ پیش کیا جاتا تھا۔ بیچ میں گانے بھی ہوتے اور ان پررقص بھی کیا جاتا۔
لکی ایرانی سرکس بین الاقوامی سرکس تھا جس میں ہم نے پہلی بار غیر ملکی جانور دیکھے۔ یہ گردشی چڑیا گھرقریہ بہ قریہ گھومتے رہتے تھے۔ ان میں وہ بدبوہوتی تھی کہ اللہ کی پناہ لیکن ہم ایک جہانِ حیرت میں کھو جاتے تھے۔ اس حیرت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ذہن میں چڑیا گھر کا تصوراتنا ہی محدود تھا جتنا پرائمری سکول کی کتاب میں اس کا عکس۔ ہم نے چھٹی جماعت میں پہلی بار اس کی رنگین تصویر دیکھی تھی۔ اس کے علاوہ موت کے کنویں، جھولے، انواع و اقسام کے کھابوں کے ڈھابے اور بیلوں کی دوڑ، کبڈی اور دیگر مقابلے اس میلے کی شان تھے۔
ایک وقت تھا کہ ایسے میلے معمول سے منعقد ہوتے تھے لیکن پھر خون خرابے کا ایسامیلہ سجا کہ ہماری قوم کی دہائیاں نگل گیا۔ میلے ٹھیلے بند ہوئے توغریب اور متوسط طبقے سے یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی چھن گئیں۔ جب آپ ہنسنے گانے کے رستے بند کردیں، جب سانس لینا مشکل ہو جائے اور سال بعد کوئی میلہ دیکھنے کا خواب بھی غریب سے چھین لیا جائے تو پھر رویوں میں تشدد کیوں نہ در آئے، پھر تنگ نظری اور سنگ دلی کا راج کیوں نہ ہو۔
ان لوگوں کا سوچیے جو آٹھ دن مسلسل میلہ دیکھنے جاتے تھے۔ کاندھے پر دھوتی رکھے، تیل میں سر لتھیڑے، سرمہ سکہ کئے ان میلوں ٹھیلوں میں کان پر ہاتھ رکھے جوگ میں ماہیے ٹپے گانے والوں کے پاس بیٹھ کر سر دھننے والے غریبوں کی خوشی کو کوئی ہم جیسا کیسے سمجھ سکتا ہے، اسے وہی سمجھ سکتا اور محسوس کر سکتا ہے جسے زندگی میں سال بعد یہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔
لاہور کے اس میلے میں خواجہ سرا گھوم بھی رہے تھے لیکن انھیں کہیں رقص کناں نہ دیکھا۔ یہ غالبا لاہور کی سڑکوں اور چوراہوں پربھیک مانگنے والے خواجہ سرا تھے۔ فتح جنگ کے میلے میں، مجھے یاد ہے کہ خواجہ سراؤں کی ٹولیاں یہاں وہاں گھوم رہی ہوتی تھیں، یہ لوگ موت کے کنویں میں شو شروع ہونے سےقبل اس کے باہر ’پھٹے‘ یعنی اسٹیج پر ’مفت‘ رقص کرتے اور لوگوں کو موت کے کنویں کا ٹکٹ لے کرموت کے کنویں میں داخلے کی ترغیب دیتے۔ کئی من چلے جن کی جیبیں ٹکٹ خریدنے کی اجازت نہ دیتیں، پہروں وہیں کھڑے انھیں دیکھتے رہتے۔ آخری دن عورتوں کا میلہ ہوتا تھا اس دن صرف عورتیں ہی میلے میں جا سکتی تھیں، لیکن لاہور کے اس میلے میں مرد و زن ایک ساتھ میلہ دیکھ رہے تھے۔
جھولوں وغیرہ کے عقب میں ایک عارضی بازار تھا جہاں مختلف کھابوں اور کھلونوں کی دکانیں سجی تھیں، جنھیں دیکھ کر وہ کھلونا گاڑیاں بہت یاد آئیں جو ہم فتح جنگ کے میلے سے خریدتے اورکئی دن ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ میں پلاسٹک کے ان کھلونوں کوحیرت او رمحبت سے دیکھے جا رہا تھا، نہ جانے کیوں، یہ کھلونا گاڑیاں سڑک پر بھاگتی لوہے کی بڑی بڑی گاڑیوں سے زیادہ حسین اوراصلی دکھائی دیں۔ خدا جانے سچی مسرتوں کے وہ لمحے زمانے کی گرد میں کہاں گم ہو گئے۔ ان پر سے دھول ہٹانے کی کوشش میں آنکھیں دھندلا جاتی ہیں۔
میرا دل اب بھی ہے سائیں حاضر کے میلے کے جگ مگ کھلونوں میں اٹھکا ہوا
ایک لڑکا سا گلیوں میں دوڑاتا ہے آج بھی نیلی، پیلی، ہری گاڑیاں