لاہور کے نجی کالج میں سیکیورٹی گارڈ کی ایک طالبہ سے مبینہ جنسی زیادتی کے معاملے پر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) شہربانو نقوی کا اہم بیان سامنے آگیا ہے۔
پنجاب پولیس کے آفیشل ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں اے ایس پی شہربانو نقوی نے کہا کہ گزشتہ روز لاہور میں امن و امان کی افسوسناک صورتحال سامنے آئی جس کی وجہ صرف اور صرف غلط معلومات تھی، سوشل میڈیا اور مختلف پلیٹ فارمز پر مس انفارمیشن پھیلائی گئی اور پروپیگنڈا کیا گیا۔‘
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کالج میں لڑکی سےمبینہ زیادتی کا معاملہ ہے کیا؟
اے ایس پی شہربانو نقوی نے کہا کہ ہمیں یہ سننے کو بھی ملا کہ ایک نجی کالج کی طالبہ جس کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی گئی اسے نجی اسپتال میں لے جایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی جس سرکاری اسپتال میں موجود ہیں ہم نے نہ صرف اس اسپتال کا ریکارڈ چیک کیا بلکہ اس نجی اسپتال کا ریکارڈ بھی چیک کیا۔
لاہور میں افسوسناک صورتحال سامنے آئی جس کی وجہ ڈس انفارمیشن تھی۔ ہمیں یہ سننے کو ملا کہ ایک نجی کالج کی طالبہ جس کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی گئی اسے نجی ہسپتال میں لے جایا گیا ہے۔ ہم جس سرکاری ہسپتال میں موجود ہیں ہم نے نا صرف اس ہسپتال کا ریکارڈ چیک کیا بلکہ اس نجی ہسپتال کا… pic.twitter.com/qwQwSMemJX
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) October 15, 2024
انہوں نے کہا کہ تمام ریکارڈ چیک کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ زیادتی کا شکار کسی بھی لڑکی کو اس اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔ شہربانو نقوی نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس نجی اسپتال کا نام لیا جا رہا ہے وہاں میڈیکولیگل کیسز ڈیل نہیں کیے جاتے بلکہ اس اسپتال کی ایمرجنسی میں بھی ایسا کوئی کیس ڈیل نہیں کیا گیا۔
اے ایس پی شہربانو نقوی نے کہا کہ اس اسپتال کی تمام منازل کو چیک کرنے کے بعد بات سامنے آتی ہے کہ مبینہ متاثرہ بچی اس نجی اسپتال میں نہیں گئی۔ انہوں نے طلبا سے اپیل کی کہ وہ اپنے اور قوم کے مستقبل کو تباہ نہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کالج میں مبینہ زیادتی کے حقائق جاننے والے رابطہ کریں، عظمیٰ بخاری کی اپیل
وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر اعلیٰ اختیاراتی تحقیقاتی کمیٹی قائم
دوسری جانب، واقعہ کی تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر گزشتہ روز 7 رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کردی گئی تھی جسے 48 گھنٹوں میں رپورٹ مرتب کرکے وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ گزشتہ روز اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے بھی اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
واضح رہے کہ چند روز قبل ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا کیس اس وقت سامنے آیا جب انٹرمیڈیٹ کی ایک ٹیچر نے کلاس روم میں مذکورہ طالبہ کے کلاس فیلوز سے اس کی غیر حاضری کی وجہ جاننا چاہی۔ جس کے بعد بعض کلاس فیلوز نے لڑکی سے رابطہ کیا تو اس کا نمبر بند تھا تاہم والدین سے رابطہ کیا گیا تو پتا چلا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کالج کے گارڈ نے جنسی زیادتی کی ہے اور وہ آئی سی یو میں زیر علاج ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نجی کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی، وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر اعلیٰ اختیاراتی تحقیقاتی کمیٹی قائم
اس واقعہ کے انکشاف پر طالبات میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ٹیچرز اور طلبا کو بھی تمام صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ گزشتہ روز اس واقعہ کے خلاف طلبا نے کالج کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں کالج کے سیکیورٹی گارڈز نے طالبات پر تشدد کیا، جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری کیمپس کے باہر پہنچ گئی تھی تاہم مشتعل طلبا نے پولیس پر بھی پتھراؤ کیا۔
13اکتوبر کو ڈی آئی جی آپریشنز کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، نجی کالج میں سیکیورٹی گارڈ کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے افسوسناک واقعہ پر لاہور پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے روپوش ملزم کو 10 گھنٹوں میں ڈھونڈ نکالا تھا۔