اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے سبب جڑواں شہروں میں ریڈ، اورنج، گرین لائن بس سروس سمیت دیگر بس سروسز کو 14، 15 اور 16 اکتوبر کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ اجلاس میں غیر ملکی وفود سمیت مختلف ممالک کے سربراہان نے شرکت کرنا تھی۔
تاہم سربراہی اجلاس ختم ہونے کے باوجود 17 اکتوبر کو بھی تمام بس سروسز کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ متعلقہ اتھارٹی نوٹیفیکیشن کے مطابق سیکیورٹی وجوہات کی بناپر 17 اکتوبر کو بھی میٹرو سروسز کو بند کیا جا رہا ہےکیونکہ اب بھی بعض غیر ملکی وفود اسلام آباد میں موجود ہیں۔
یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے لیے غیر ملکی وفود کی آمد کا سلسلہ 14 اکتوبر سے شروع ہو چکا تھا جس کی وجہ سے 14 اکتوبر ہی کو شہر بھر میں ٹریفک کے کنٹرول کی آمدورفت کو کم کرنے کے لیے ان بس سروسز کو بند کیا گیا۔
اس سے قبل ملائیشیا کے وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کے دوران اور پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران بھی جڑواں شہروں میں میٹرو بس سروسز کی بندش دیکھی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے اسلام آباد: ریڈ، گرین، بلیو اور اورنج لائنز بحال نہ ہوسکیں
اب 18 اکتوبر کو بھی پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی کال دی گئی جس کی باعث عوام میں تشویش پائی جا رہی ہے کہ میٹرو بس سروس اگلے کتنے روز تک بند رہے گی؟ اور شہریوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
میٹرو بس کی بحالی کے حوالے سے ڈی جی میٹرو رانا طارق نے وی نیوز کو بتایا کہ میٹرو بس سروسز کب سے بحال ہوں گی، اس کا فیصلہ تو ضلعی انتظامیہ کرے گی۔ ہمارے علم میں فی الحال ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں کہ آج شام سے بحال ہوں گی یا پھر کل سے۔
میٹرو ذرائع کے مطابق میٹرو بس سروسز کا آج شام تک بحال ہونا مشکل ہے، اگرچہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ آج شام کو کھل جائیں گی۔ لیکن میرے علم کے مطابق آج مارننگ شفٹ کو تو چھٹی دے دی گئی تھی، ساتھ ہی ایوننگ شفٹ کو بھی دی گئی ہے۔ البتہ کل میٹرو بس سروسز بحال ہو جائیں گی۔
ڈپٹی کمشنر کے ترجمان نے وی نیوز کو بتایا کہ میٹرو بس سروسز یقینی طور پر کل سے بحال کر دی جائیں گی۔ آج بحال ہو جانی تھیں، لیکن اسلام آباد میں اب بھی چند ممالک کے وفد موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے میٹرو سروسز کو بند رکھا گیا۔ آج وہ چلے جائیں گے، کل صبح سے بس سروسز کو بحال کر دیا جائے گا۔
میٹرو بس سروس کی بندش سے جڑواں شہروں کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ میٹرو بس سروس سفر کا سب سے مناسب ذریعہ ہے دونوں شہروں میں آمدو رفت کا، لیکن اگر وہی بند کر دی جاتی ہے، تو اس سے جہاں انہیں دیگر مشکلات پیش آتی ہیں وہاں ان کے روزگار بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی میڈیا کوریج پر لاکھوں روپے فیس؟
ریحان طارق کا تعلق راولپنڈی چکری روڈ سے ہے۔ وہ بلیو ایریا کے ایک ریسٹورنٹ میں مینیجر ہیں جنہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک لوکل وین کے ذریعے پہلے صدر تک آتے ہیں۔ اور پھر صدر سے میٹرو کے ذریعے اسلام آباد بلیو ایریا پہنچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2 دن تو ریسٹورنٹس بند تھے، اس کے باوجود انہیں کچھ معاملات کے لیے ریسٹورنٹ جانا پڑا۔ وہ راستوں کی بندش کے باوجود آفس پہنچ گئے، جہاں وہ یک طرفہ کرایہ 100 روپے لگاتے ہیں وہاں انہیں تقریباً 1500 روپے دینا پڑے ہیں۔ اس سے قبل بھی اس مہینے مختلف وجوہات کی وجہ سے میٹرو بس سروسز کو متعدد بار بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے نوکری پیشہ افراد کو بہت زیادہ مشکل ہو رہی ہے۔
’ ایس سی او کانفرنس ختم ہونے کے بعد جب تقریباً سارے روٹس کھول دیے گئے ہیں تو میٹرو بس سروس بھی بحال کر دی جائے۔ میٹرو بس سروس کا تو اپنا ایک الگ روٹ ہے جس کی وجہ سے وی آئی پی موومنٹ کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ میٹرو سروس کو مزید معطل نہ رکھے کیونکہ ہم جیسے افراد کے لیے گھر کو چلانا یا نوکری پر جانا مشکل ہو گیا ہے۔ کیونکہ اس مہینے کی آدھے سے زیادہ تنخواہ تو اسی طرح لگ چکی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیے پشاور میں ایک بار پھر میٹرو ٹرین کا اعلان، کیا یہ منصوبہ ممکن بھی ہے؟
رئیل اسٹیٹ کی نوکری سے وابستہ حدیقہ کاشف نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ صادق آباد سے روزانہ آئی ایٹ آتی ہیں۔ میٹرو بس جب بھی بند ہوتی ہے، ان کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جتنی تنخواہ ملتی ہے، اس حساب سے میٹرو کے علاوہ آن لائن ٹیکسی سروس افورڈ نہیں کر سکتی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آئے روز کا تماشا بن چکا ہے۔ کبھی احتجاج، کبھی کرکٹ میچ اور کبھی کوئی اجلاس ہو رہا ہوتا ہے۔ ایس سی او ایک بڑا اجلاس تھا، اس کا سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن یہاں تو ہر دوسرے معاملے پر میٹرو بند ہو جاتی ہے۔
’’ اگر حکومت نے ایک سہولت دے ہی دی ہے تو آئے روز اس سہولت کو بند کر کے عوام کو ذلیل نہ کرے۔ جب باقی تمام راستے کھل سکتے ہیں تو پھر میٹرو کی بحالی سے کون سا طوفان آ جائے گا۔ ایسے لگتا ہے جیسے سارے دہشت گرد میٹرو ہی میں سفر کرتے ہیں۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ متبادل آن لائن ٹیکسی سروس پر ہزار سے بات شروع ہوتی ہے، اتنی تو آمدن بھی نہیں ہوتی کہ ایک عام شہری روزانہ ایک ہزار روپے سے زائد کرائے بھاڑے کی مد میں خرچ کردے۔دوسری طرف اگر آفس سے چھٹی کی جائے تو اس غیر حاضری کے پیسے تنخواہ سے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ یہ سارا معاملہ ہمارے لیے مصیبت بن چکا ہے۔