لاہور کے نجی کالج میں ہونے والے واقعے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے رپورٹ مرتب کرلی گئی ہے
لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کی تحقیقات کے لیے چیف سیکریٹری پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، صوبائی سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن اور سیکریٹری اسپیشل ایجوکیشن پر مشتمل کمیٹی نے رپورٹ مرتب کرلی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبہ مبینہ زیادتی کیس، لاہور ہائیکورٹ نے فل بینچ تشکیل دے دیا
کمیٹی نے سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی روک تھام کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالب علموں کو اپنے معاملات مثبت انداز میں لینے کی ضرورت ہے، طالب علمون کو منفی اور مثبت سرگرمیوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ طالب علموں کو فیک نیوز فلٹر کرنے میں رہنمائی دینے کی ضرورت ہے، والدین اپنے بچوں کا استحصال نہ ہونے دیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافے کی ضرورت ہے۔
کمیٹی نے سوشل میڈیا پر مبینہ واقعے پر نفرت انگیز معاملے کی مزید تفتیش کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور ویلاگرز کو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں نجی کالج کے طلبا کا احتجاج، توڑ پھوڑ میں ملوث 250 شرپسندوں کیخلاف مقدمہ درج
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیک نیوز پھیلانے کے لیے جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس استعمال کیے گئے، فیک نیوز کے ذریعے معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا، اس واقعے سے فیک نیوز کے ذریعے اشتعال پھیلانا بھی ثابت ہوتا ہے۔
رپورٹ میں مزید سفارش کی گئی ہے کہ حکومت کو متاثرہ خاندان کی عزت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
9 صفحات پر مشتمل رپورٹ پر چیف سیکرٹری پنجاب سمیت تمام افسران کے دستخط موجود ہیں، کمیٹی نے 15 اور 16 اکتوبر کو ریکارڈ کیے گئے 16 افراد کے بیانات کو اہم قرار دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر شاید وحید کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: نجی کالج کی طالبہ سے زیادتی کا معاملہ، صوبائی وزیر اطلاعات اور اپوزیشن رکن میں تلخ جملوں کا تبادلہ
جنرل اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین اور ڈی ایم ایس ڈاکٹر وقاص یاسین ، ایور کیئر اسپتال کے کرنل ریٹائرڈ صابر حسین بھٹی اور اتفاق اسپتال کے ڈاکٹر واصف کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔
کمیٹی نے جنرل اسپتال کے عملے سے روزانہ جنسی زیادتی سے شکار مریضوں سے متعلق بھی تفتیش کی۔
یاد رہے کہ چند روز قبل لاہور میں ایک نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پنجاب کالج کے خواتین کے لیے مخصوص گلبرگ کیمپس میں فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ کو اُسی کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا معاملہ، ابتدائی رپورٹ سامنے آگئی
یہ خبر سامنے آنے کے بعد طلبا کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا جو کئی روز تک جاری رہا اور اس میں دو درجن کے لگ بھگ طلبا زخمی بھی ہوئے۔
احتجاج کرنے والے طلبا کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آئے تھے کہ کالج کی انتظامیہ مبینہ طور پر اس واقعے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس حوالے سے دستیاب تمام شواہد بھی ختم کر دیے ہیں۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جبکہ پولیس نے سیکیورٹی گارڈ کو بھی حراست میں لے لیا تھا، جبکہ لاہور پولیس کی جانب سے طلبا اور عوام سے متعدد بار اپیل کی گئی تھی اگر اُن کے پاس اس واقعے کی کوئی تفصیل موجود ہے تو وہ پولیس کے ساتھ شیئر کی جائے۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے بھی مزکورہ واقعے کے خلاف تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر فل بینچ تشکیل دے دیا ہے جو 22 اکتوبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔