ہم دیکھتے ہیں کہ کپتان ایک دن سب کو جوش دلا رہا ہوتا ہے۔ خوف توڑ دیں، باہر نکلیں اور پھر اگلے دن پھر ہم اس کو فوڈ پانڈے والے ڈبے میں سر چھپائے بہادری سے عدالت پہنچتے دیکھتے ہیں۔
کپتان کو ہم روز خطاب کرتا دیکھتے ہیں۔ وہ ناغہ نہیں کرتا۔ کچھ بھی کہتا رہتا ہے۔ میڈیا اسپیس کوئی اور نہ لے جائے یہ ڈر اسے روز کچھ کہنے پر اکساتا ہے۔
’14 مئی کو پنجاب اسمبلی کا الیکشن کراؤ‘ سے کپتان بہت خوش ہوا ہے۔ اس خوشی میں اس نے چیف جسٹس کو قوم کا ابّا قرار دے دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے ایک بار ’نکے دہ ابّا‘ کی جگت لگا کر لمبے عرصے کے لیے رونق لگا دی تھی۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ’نکے‘ اور اس کے ’ابّا‘ کے لطیفے کبھی گوگل کریں دن اچھا گزرے گا۔
کپتان حکومت جانے کے بعد اک دن کے لیے آرام سے نہیں بیٹھا۔ اس نے اپنے لیے ٹارگٹ ہی بہت مشکل سیٹ کرلیا ہے۔ روز کچھ کہنا ہے، سامنے رہنا ہے، متعلق رہنا ہے۔ ہم نواز شریف کی چپ کو اثر پذیر ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ ان کی لمبی چپ کپتان کی حکومت لے بیٹھی۔ کپتان کی پورے سال کی جارحانہ حکمتِ عملی کا حاصل حصول صفر ہے۔
دو صوبائی اسمبلیاں وہ ہاتھ سے گنوا چکا ہے۔ خود اسمبلیاں توڑ کر اب ان کے 90 دن میں انتخابات کروانا چاہ رہا ہے۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دے کر واپس اسمبلی میں گھسنے کی کوشش بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔
اسد قیصر سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے اہم رہنما ہیں۔ انہوں نے مذاکرات کے لیے تیار ہونے اور الیکشن کی تاریخ آگے بڑھانے کے لیے ون ٹائم ترمیم سے متعلق تعاون تک فراہم کرنے کی بات کی ہے۔ فواد چوہدری نے بھی تمام امور پر تمام اسٹیک ہولڈر کے مذاکرات کرنے کی اہمیت پر ایک بیان دیا ہے۔
آف دی ریکارڈ بات چیت میں پی ٹی آئی کے اکثر رہنما اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن فوری ہونا ممکن نہیں لگتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری معلومات اور اصل ڈر یہ ہے کہ حکومت اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کروانا چاہتی۔ یہ ایک سال مزید نہ بیٹھے رہیں اس لیے ہم دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
تحریک انصاف نے منہ طرف پنڈی شریف کرکے جتنی آوازیں لگائی ہیں، جیسے جیسے آئٹم پیش کیے ہیں، وہ سب بے اثر رہے ہیں۔ سر جی کا دل ہی بڑا سخت ہوا پڑا ہے۔ پی ٹی آئی والوں کو جو جواب ملا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نہیں بھولے جو کچھ کپتان نے ہمارے ساتھ کیا اور جو کچھ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ساتھ اب کر رہا ہے۔
کہنے والوں کے مطابق یہ تک کہا گیا ہے کہ ہم پی ڈی ایم کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے حکومت سنبھالی اور مشکل فیصلے کیے۔ اپنا سیاسی سرمایہ تک گُل کیا۔ مذاکرات کرنے ہیں تو جاؤ حکومت کے ساتھ کرو، سیاسی جماعتوں کے ساتھ کرو۔ پی ٹی آئی ایسا کرے مر نہ جائے؟
اگر یہ سب باتیں ٹھیک ہیں یا ان میں کچھ بھی درست ہیں تو ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ کپتان کی واپسی ہرگز آسان نہیں۔ اس کی حکومت اس لیے تھوڑی گرنے دی گئی تھی کہ وہ واپس آجائے۔
کپتان نے جس طرح اپنے سیاسی ہدف وقت، تاریخ اور تبدیلیوں کے ساتھ منسلک کیے ہیں، اس نے کپتان کے سیاسی عزائم کو بہت دھچکے دیے۔ پہلے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل گھڑمس مچایا گیا، ناکامی ہوئی۔ اب کوشش کے باوجود بھی وہاں سے لفٹ نہیں مل رہی ہے۔
اب جو نئے ابّا جی قرار پائے ہیں ان کا اپنے برادر ججوں سے پہلے ہی شغل چل رہا ہے، یعنی ہمارے چاچے آپس میں ایک دوسرے کو سیدھے ہوئے وے ہیں۔
ستمبر وہ ستمگر مہینہ ہے جس کا اب کپتان اور پی ٹی آئی کو خوف ہے۔ صدر عارف علوی رخصت ہوں گے۔ مائی لارڈ بھی نئے آجائیں گے۔ اس لیے بے قرار ہوکر ات مچا دی گئی ہے۔
تجمل کلیم کا ایک پنجابی شعر خوف کو بہت الگ طرح سے بیان کرتا ہے۔ شعر ہے کہ
تونہہ مرنا اے میرے ہتھوں
تیتھوں اینا ڈریا ہویاں
یہ کپتان کا ڈر ہے جو وہ سارے نظام کو مارنے یا گرانے نکلا ہوا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ میں نے نظام نہ گرایا تو یہ مجھے فارغ کردے گا۔
کپتان کا پی ڈی ایم لیڈر شپ سے بھی خوف ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے پی ڈی ایم کے سیاسی قائدین بھی حد ہیں اور ٹھنڈے بدلے لینے پر یقین رکھتے ہیں۔ کپتان کی نت نئی تڑیوں اور ناکامیوں کو انجوائے کرتے ہیں۔
سیاست اتنی بے رحم ہوتی ہے کہ اعلانیہ بات چیت پر اصرار کرتے حکومتی زعما اندر کھاتے تحریک انصاف کو کوئی اسپیس دینے اور ان سے بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کسی قسم کے مذاکرات سے پہلے پی ٹی آئی سے ایسے آپٹکس چاہتے ہیں جن میں وہ سابقہ غلطیوں کا اقرار کریں۔ اگر یہ سب دیکھیں تو کپتان اپنی جارحانہ پیس برقرار رکھنے میں حق بجانب دکھائی دیتا ہے۔