استحکام کی منزل کتنی دور ہے؟

اتوار 27 اکتوبر 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں ریفرنس اور جسٹس منصور علی شاہ کے خط کی خبریں یکے بعد دیگرے آئیں۔ ایسی صورت میں صحافی  اگر وہ چاہے یا نہ چاہے، بہ ہر صورت اس کی توجہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورت حال کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا لیکن اسی دوران میں فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف میری بیٹی تھی، کہنے لگی:

‘ اتنا کچھ ہو گیا بابا، سکون کب ہو گا؟’

‘ کیا ہو گیا بیٹا؟’

میں نے پریشانی کے ساتھ سوال کیا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے سوال نے مجھے پریشان کر دیا ہے لہٰذا اس نے فوراً وضاحت کی کہ وہ الحمدللہ بہ خیریت ہے، اس کا اشارہ مخالف سمتوں میں بہنے والے ان دو دھاروں کی طرف ہے جس کی خبر ٹیلی ویژن دے رہا ہے۔

بچے اور بچیاں کتنے ہی بڑے ہو جائیں، اپنے پاؤں پر ہی کھڑے کیوں نہ ہو جائیں، پتہ کھڑکنے پر بھی والدین کا دل مٹھی میں آ جاتا ہے۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا، بیٹی کو تسلی دی اور کہا کہ شام کو گھر بیٹھ کر تسلی سے بات کریں گے۔ شام کے ہوتے ہوتے ایک اور اطلاع پریشان کرنے کے لیے موجود تھی۔ معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں سنگجانی کے قریب پولیس کے کانوائے پر حملہ ہو گیا ہے اور حملہ کرنے والے کوئی چور ڈاکو نہیں سیاسی کارکن ہیں جنھوں نے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کی کوشش کی۔

اگر ایک نوجوان ذہن ریفرنس اور ایک جج کے خط سے پیدا ہونے والی پیچیدہ صورت حال کی سنگینی کو سمجھ سکتا ہے تو ایسا واقعہ تو اس کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ خیر، میں نے نئی صورت حال پر کوئی تبصرہ کیے بغیر بالواسطہ انداز میں بات چھیڑی اور اپنی اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ کی بیٹی کافی پریشان رہی۔ بیٹی نے کپ میز پر رکھا، بناوٹی سی تیوری اس کے ماتھے پر نمودار ہوئی اور اس نے کہا:

‘ بابا! یہ کوئی مذاق کی بات ہے؟ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ اب یہ ایک اور تماشا ہو گیا ہے۔’

اس کا اشارہ سنگجانی میں پولیس پر حملے کی طرف تھا۔

‘ ہرگز مذاق نہیں بلکہ میں تو ایک طرح سے خوش ہوا ہوں کہ آپ قومی معاملات پر اتنی توجہ دیتی ہو اور دو مختلف واقعات کے درمیان ربط بھی تلاش کر لیتی ہو۔’

میرا خیال تھا کہ وہ اپنے سیاسی شعور کے کھلے بندوں اعتراف اور اس کی تحسین پر مطمئن ہو گی لیکن اس نے اپنی تعریف کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال کیا کہ سکون کب ہو گا؟

سوال کے پس پشت نوجوان ذہن کی پریشانی اور بے چینی واضح تھی۔ الجھا ہوا اور پریشان ذہن دوٹوک گفتگو پسند کرتا ہے لیکن اس صورت میں اگر جواب دینے والے کے ذہن میں سوال پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہو لہٰذا میں نے اس سے سوال کیا:

‘ بیٹا! صبح جب آپ کا فون آیا تو اس وقت آپ نے ایک بات کہی تھی کہ اتنا بہت کچھ ہوگیا، میں جاننا چاہتا ہوں کہ اتنا بہت کچھ سے آپ کی مراد کیا ہے؟’

بچی کے چہرے پر اطمینان کے آثار پیدا ہوئے اور اس نے تفصیل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ 26 ویں آئینی ترمیم جس کی ہنگامہ خیز پیش رفت پر میرا اس کے ساتھ کوئی مکالمہ نہیں ہوا تھا، اس کی بیش تر تفصیلات اس کے علم میں ہیں اور جن مقاصد کے لیے یہ ترمیم کی گئی، ان سے بھی وہ آگاہ ہے۔ اب اس کا سوال یہ تھا کہ ترمیم ہوگئی اور عدلیہ میں جس توازن کا فقدان تھا، وہ دور ہو گیا تو پھر یہ اختلاف کیسا ہے؟

یہ سوال سادگی کا شاہ کار تھا اور سچ یہ ہے کہ ایک زمانے میں ؛ میں خود بھی اسی طرح سوچا کرتا تھا۔ سادگی واضح تھی۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وہ مسائل جو گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران میں اداروں کی شکست ریخت سے پیدا ہوئے اور اس کے نتیجے میں سیاسی اور ادارہ جاتی مفادات نے جنھیں دو چند بلکہ دہ چند کر دیا ہو، وہ یکایک کہاں درست ہوتے ہیں خواہ قانون بلکہ آئین میں ہی ترمیم کیوں نہ کر لی جائے۔

ہمارا موجودہ قومی منظر نامہ کیا ہے؟ یہ سوال عمرو عیار کی زنبیل جیسا ہے۔ اس سوال میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں دیے گئے ریفرنس میں بہت سے ججوں کی عدم شرکت، جسٹس منصور علی شاہ کے خط اور سیاسی بے چینی کے تمام تر پہلو موجود ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں سپریم کورٹ نے جب ایک فیصلے کے ذریعے ججوں کے تقرر اور تقرری کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے تو اسی وقت یہ بھی طے ہو گیا تھا کہ اول عدلیہ اب نظام سیاست میں تیسرے اسٹیک ہولڈر کا کردار ادا کرے اور دوم ہمارے یہاں عدم استحکام بڑھ جائے گا اور وہ صرف سیاست تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے اثرات معیشت سے ہوتے ہوئے خارجہ تعلقات تک پھیل جائیں گے۔

جسٹس سجاد علی شاہ کے جوڈیشل ایکٹیو ازم کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف کو وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کی عدالت میں پیش ہونا پڑا تھا لیکن جسٹس صاحب صرف اتنے پر مطمئن نہیں تھے، وہ آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن اس مرحلے پر ریاست کے دیگر اسٹیک ہولڈرز نے انھیں اس کا موقع فراہم نہیں کیا۔

بعد کے زمانے میں ہم نے عدلیہ کے ذریعے ہی وزرائے اعظم کو گھر جاتے ہوئے دیکھا۔ یہ واقعات اتنے سادہ نہ تھے کہ انھیں کسی عام مقدمے میں کسی عام آدمی کو دی گئی سزا سمجھ لیا جائے۔ ان واقعات نے مقننہ اور انتظامیہ، دونوں کے تار و پود تک بکھیر کر رکھ دیے جس کی وجہ سے پورا ریاستی ڈھانچا ہی لرزہ براندام ہو گیا۔ یوں کچھ وقت گزرنے کے بعد پہلی بار سمجھ میں آیا کہ اس سلسلے کو اب نہ روکا گیا تو پھر کچھ باقی نہیں بچے گا۔

میاں محمد نواز شریف ہوں، پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا ملک کی دیگر جمہوریت پسند سیاسی قوتیں، وہ سب اس بگاڑ کی اصلاح چاہتی تھیں۔ میثاق جمہوریت کے علاوہ بھی یہ خواہش سامنے آتی رہی ہے۔ اس خواہش میں ریاست کے دیگر اسٹیک ہولڈر بہ شمول عدلیہ کا ایک حصہ بھی شامل ہو گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیے بیٹھے رہے اور انھوں نے عدلیہ میں بیرونی مداخلت پر خاموشی اختیار کیے رکھی، یہ اسی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔

مزید وضاحت اس کی یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظام کی اصلاح کے حق میں تھے جب کہ عدلیہ کے اندر ہی ایک طبقے کے رائے اس کے برعکس تھی۔ اس کے خیال میں اس نظام کا برقرار رہنا ہی مناسب تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا خط یہی واضح کرتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد بھی یہ کش مکش برقرار کیوں ہے؟ یہ سوال  اپنے اندر کچھ کم وحشت نہیں رکھتا۔

عدلیہ میں جب سے اختلاف رائے پیدا ہوا ہے، یہ تبصرہ کھلے عام ہونے لگا ہے کہ ہمارے جج سیاسی ہو گئے ہیں۔ یہ تبصرہ درست ہو یا نہ ہو، ایسا کہنا درست ہو یا نہ ہو لیکن یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ سیاسی کش مکش کے اثرات بہر صورت عدلیہ پر پڑتے ہیں اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ ملک  اتنی گہری تقسیم کا شکار ہو چکا ہو اور ریاست کے مختلف اعضا و جوارح اس سے محفوظ رہ جائیں۔ یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس صورت حال کا حل کیا ہے؟ ملک کی موجودہ صورت حال میں سب سے اہم سوال یہی ہے۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ میاں محمد شہباز شریف یعنی مسلم لیگ ن کی حکومت کی جھولی میں بہت سی چیزیں موجود ہیں۔ مختصر الفاظ میں خلاصہ یہ ہے کہ کارکردگی اس حکومت کا طرہ امتیاز ہے۔ میاں شہباز شریف کی حکومت نے مختصر مدت میں ناقابل یقین کارنامے کر دکھائے ہیں۔ معیشت کو استحکام دے دیا ہے۔ افراط زر کی شرح میں غیر معمولی کمی واقع ہو چکی ہے۔ پاکستان کو جس سفارتی تنہائی کا شکار کر دیا گیا تھا، ملک کو اس سے بڑی کامیابی سے نکال لیا گیا ہے۔ ایس سی او کا انعقاد سفارتی کامیابی کا ایک نیا معیار ہے۔ اس معیار کی اگلی منزل ایک اور بڑی کامیابی ہے جس کا تعلق برکس میں پاکستان کی شمولیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے دور ہو جانے سے ہے۔ اتنی بہت سی کام یابیاں اگر کسی حکومت کی جھولی میں آ پڑیں تو اس کے خوش قسمت ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا لیکن ایک کمی اب بھی باقی ہے۔

یہ کمی ہے جوابی بیانیے کا عدم وجود۔ کارکردگی جوابی بیانیے کو یقیناً بنیاد فراہم کرتی ہے لیکن یہ مکمل بیانیہ نہیں ہوتی۔ مکمل بیانیہ بھرپور سیاسی سرگرمی سے پیدا ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف صاحب کی وطن واپسی کے بعد مسلم لیگ ن اگر بھرپور سیاسی سرگرمی شروع کر دے تو یہ خلا بڑی آسانی سے بھر جائے گا۔ استحکام کی منزل بس اتنی ہی دور ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp