صحت + لالچ + منافع = مریض

منگل 29 اکتوبر 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں لگ بھگ 700 دوا ساز کمپنیاں ہیں۔ ان میں سے 29 بین الاقوامی اور باقی مقامی ہیں۔ اگرچہ صحت کا حق بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے مگر پاکستان میں سنہ 1990 کے بعد سے سرکاری صحت بجٹ میں آبادی کے تناسب سے مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔اس کے سبب اس وقت صحت کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری 70 فیصد اور سرکاری سرمایہ کاری تقریباً 30 فیصد ہے۔

 عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)  اور دواساز کمپنیوں کی ایسوسی ایشنز کی بین الاقوامی فیڈریشن نے دوا ساز صنعت کے لیے مدت سے رہنما اصول وضع کر رکھے ہیں۔ سنہ سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا میڈیکل پریکٹس سے متعلق ضابطہ اخلاق بھی نافذ ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ( ڈریپ ) نے بھی دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے مارکیٹنگ اسٹرٹیجی کے پردے میں ڈاکٹروں کو تحائف و ترغیبات پیش کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے۔

مگر یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ حقیقی دنیا میں دوا ساز کمپنیاں اپنی ادویات اور دیگر پروڈکٹس بیچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں اور طبی شعبہ ان حربوں اور ترغیبات کا جانتے بوجھتے شکار ہوتا ہے۔

یہ وبا عالمگیر ہے۔ سنہ 2013 میں امریکا میں ایک ریسرچ سے معلوم ہوا کہ 95 فیصد ڈاکٹر دوا ساز کمپنیوں سے تحائف وصول کرتے ہیں۔ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق سال 2003 تا  2016 کے درمیان 26 دوا ساز کمپنیوں پر رشوت، ناجائز کمیشن، ناقص ادویات کی فراہمی اور دواؤں کے غیر قانونی متبادل استعمال کی حوصلہ افزائی کے جرم میں 33 ارب ڈالر کے جرمانے ہوئے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سنہ 2016 میں امریکی دوا ساز کمپنیوں نے اپنی دواؤں اور مصنوعات کی تشہیر و ترغیب پر 42 ارب ڈالر یعنی فی ڈاکٹر 61 ہزار ڈالر خرچ کیے۔

یہ ان ریاستوں کا حال ہے جہاں قانون کی حکمرانی بتائی جاتی ہے۔ اب سوچیے ان ممالک کا جہاں قانون کاغذ پر تو موجود ہے مگر لاقانونیت حکمران  ہے۔ یہاں آپ پوچھ سکتے ہیں کہ طب جیسے مقدس پیشے پر ایسے الزامات کے پیچھے کیا ہمارے ہاں کوئی ٹھوس ثبوت بھی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: لکیری فقیری سیکورٹی کے ششکے ۔۔۔

آغا خان سینٹر فار بائیو ایتھکس نے لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن ( ایل ایس ایچ ٹی ایم )  کے تعاون سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک اسٹڈی کی۔ اس کے نتائج موقر عالمی جریدے بی ایم جے گلوبل ہیلتھ  کے اگلے شمارے میں شائع ہونے والے ہیں۔

یہ اسٹڈی اکتوبر تا دسمبر 2021 کے دورانیے میں کی گئی۔ اس سلسلے کراچی کے 6 اضلاع میں ایک ہزار 31 نجی ڈاکٹروں سے رابطہ کیا گیا۔ ان میں سے 419  نے اس اسٹڈی کا حصہ بننے سے اتفاق کیا۔ بین الاقوامی اخلاقی ضوابط کے تحت سروے میں شامل ڈاکٹروں کو بتایا گیا کہ ہم  طبی اخلاقیات کے بارے میں ان سے رابطہ کریں گے۔ یہ رابطہ اچانک ہو گا تاہم ان کے نام راز میں رکھے جائیں گے۔

اسٹڈی کے لیے ایک فرضی دوا ساز کمپنی بنائی گئی اور 15 رضاکاروں کو کمپنی کا سیلز ریپ بننے کی 2 ہفتے کی تربیت دی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ یہ  سیلز ریپ اپنی کمپنی کی دوائیں  نسخے میں شامل کرنے کے لیے ڈاکٹرز کو مختلف ترغیبات کی پیش کش کریں اور جوابات کی بنیاد پر نتائج مرتب کیے جائیں۔

کچھ ڈاکٹروں نے مذکورہ کمپنی کی دوائیں اپنے مریضوں کے لیے لکھنے سے انکار کیا۔ ان میں سے بہت کم کا کہنا تھا کہ وہ طبی اخلاقیات کے تحت اسے ٹھیک نہیں سمجھتے۔ زیادہ تر انکار کرنے والے ڈاکٹروں کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ پہلے سے ہی کئی کمپنیوں کے مراعاتی پینل پر ہیں۔ لہٰذا کسی نئی غیر معروف کمپنی کے لیے فی الحال حامی نہیں بھرنا چاہتے۔ مگر اکثریت نے فرضی کمپنی کے سیلز ریپس کی جانب سے ترغیبات میں دلچسپی ظاہر کی۔

زیادہ تر ڈاکٹر دواؤں کے پروموشن کے عوض کمیشن، کیش یا چیک کے خواہش مند نکلے۔ بہت سوں نے اپنے کلینک کے لیے آلات یا ایئرکنڈیشنر کی فرمائش کی۔ کچھ نے پرفضا مقامات کے تفریحی دوروں یا فیملی ڈنرز کے بارے میں کریدا۔ ایک دو نے اپنی لیز گاڑی کی ماہانہ قسط کی ادائیگی میں دلچسپی ظاہر کی۔ اسٹڈی کے مطابق تقریباً 40 فیصد ڈاکٹروں نے ترغیبات کے عوض اس فرضی کمپنی کی دواؤں کے پرموشن کی حامی بھر لی۔ شاید کسی نے بھی انٹرنیٹ پر اس کمپنی کا پروفائل چیک نہیں کیا۔

ان 419 ڈاکٹروں کو 2 گروپس میں بانٹا گیا ۔ان میں سے ایک گروپ کو سیمینار میں مدعو کیا گیا۔ مریض کی صحت اور جیب کی قیمت پر ترغیبات کے منفی اخلاقی پہلوؤں سے آگاہ کرنے کے لیے تحریری، تقریری، صوتی و بصری طریقوں سے ذہن سازی کی کوشش کی گئی۔ سیمینار کے شرکا  میں سے 32 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ دوا ساز کمپنیوں کی ترغیبات کے اخلاقی پہلو سے بخوبی آگاہ ہیں مگر فوری طور پر  کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ انہیں یہ ترغیبات یکسر مسترد کر دینی چاہییں۔

اس اسٹڈی میں جن ترغیبات کا ذکر کیا گیا۔ اس کے باہر کئی معروف کمپنیوں کے حقیقی سیلز نمائندوں نے جو داستانیں سنائیں وہ بقول شخصے ’نیکسٹ لیول‘ کی ہیں۔

مزید پڑھیے: کچھ بھی تو نیا نہیں ہو رہا

ایک نے بتایا کہ ایک معروف ڈاکٹر کے بیٹے کا پورا ولیمہ ایک دوا ساز کمپنی نے اسپانسر کیا۔ ایک معروف سرجن کے اہلِ خانہ اور دوستوں کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کے ایک ملک میں ایک ہفتے کے ہالیڈے ٹرپ کے مکمل اخراجات ایک دوا ساز کمپنی نے برداشت کیے۔ ایک سیلز ریپ کا کہنا تھا کہ کسی ڈاکٹر صاحب نے کیش کی فرمائش کی تو میں نے کہا کہ میں کیش کا وعدہ تو نہیں کر سکتا مگر کمپنی کی طرف سے کلینک کے لیے اے سی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ اے سی آپ فلاں الیکٹرونکس ریٹیلر کو دے دیں۔ وہ اس کے عوض مجھے پیسے دے دے گا۔

اس کے علاوہ حقیقی سیلز ریپس نے یہ بھی بتایا کہ کلینک کی تزئین و آرائش، بچوں کی اسکول فیس اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی بھی ہوتی ہے یا اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ عمرہ پیکیج  کے بھی خواہش مند ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: مجھے بھی شرمندہ کریں نا!

بڑی بڑی  کمپنیاں دواؤں کی قیمت میں اضافے کے حق میں ایک دلیل یہ دیتی ہیں کہ ان کا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بجٹ کروڑوں اربوں میں ہوتا ہے لہٰذا دواؤں کی قیمتیں بلند رکھنی پڑتی ہیں۔ حالانکہ ایک اسٹڈی کے مطابق 10 میں سے 9 بڑی دوا ساز کمپنیاں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بجٹ  سے کہیں زیادہ جارحانہ مارکیٹنگ پر پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ جبکہ مقامی دوا ساز کمپنیاں صرف مارکیٹنگ پر زور لگاتی ہیں۔ آر اینڈ ڈی سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔

اس سب کا بوجھ نسخے میں مہنگی اضافی دواؤں اور کمر توڑ علاج کی شکل میں مریض اور اس کے خاندان کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں کہ سرکاری ریگولیٹرز کو اس کانڈ کا علم نہیں۔ مگر گیم اتنی بڑی ہے کہ اس گنگا میں ہر کوئی تیر رہا ہے جبکہ مریض مسلسل ڈبکیاں کھا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp