کیچ 22: عمران خان کی رہائی میں اصل رکاوٹ 

جمعہ 1 نومبر 2024
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

  کیچ ٹوئنٹی ٹو دراصل ایک مشہور منطقی مخمصہ یا پیراڈاکس (Paradox)ہے۔ ایسی سیچویشن جس سے کوئی فرد نکل ہی نہیں سکتا، باہر نکلنے کے تمام راستے کیچ22کے باہم متضاد دلائل کے باعث بند ہوتے ہیں۔ ایسی ہر سیچوئشن کے آخر میں صفر ہی آتا ہے یعنی کوئی حل نہیں نکلتا۔

  کیچ ٹوئنٹی کو سمجھنے کے لیے ایک دو سادہ مثالیں دیتا ہوں، پھر ہم عمران خان کی طرف چلتے ہیں۔

  انسائیکلوپیڈیا وکیپیڈیا نے اس حوالے سے قارئین کو سمجھانے کے لیے ایک مثال یہ دی ہے کہ فرض کریں کسی بنک نے قرضہ دینے کی شرط ہی یہ رکھی ہے کہ پہلے بنک کو قائل کیا جائے کہ میں قرضہ نہیں لینا چاہتا۔اب اس میں تضاد یہی ہے کہ جب بندہ قائل کرے گا کہ میں نے قرضہ نہیں لینا تو پھر قرضہ کیسے ملے گا؟

  امریکی ناول نگار، مصنف جوزف ہیلر نے 1961میں کیچ 22کے نام سے ایک ناول لکھا جو دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے تھا، دراصل یہ جنگ اور ملٹری بیوروکریسی پر طنزیہ تحریر تھی۔اس پر فلم بھی بن چکی ہے۔ناول میں ایک کردار یہ اصطلاح ’کیچ ٹوئنٹی ٹو‘ استعمال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی عقل وفہم سے عاری پائلٹ ہی مسلسل جان لیوا، خطرناک فضائی مشن پر جائے گا۔ اگر اس میں عقل ہوگا تو وہ اس سے گریز کرے گا اور ایسا ممکن ہے۔ اسے صرف ایک درخواست دینا ہوگی کہ اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں، اس لیے اسے  ایسے خطرناک مشن پر نہ بھیجا جائے، مگر کیچ 22 یہ ہے کہ جب کوئی پائلٹ یہ درخواست دے تو اسی درخواست سے یہ پتہ چل جائے گا کہ اس کی ذہنی حالت ٹھیک ہے، یہ صرف ہوشیاری دکھا رہا ہے، اس لیے درخواست فوری مسترد ہوجائے گی۔

  یوں کیچ22 ایک ادبی اصطلاح سے ایسی اصطلاح بن گئی، جسے کہیں پر بھی فٹ کیا جا سکتا ہے۔

  اب آتے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف۔ عمران خان کی جیل میں موجودگی بھی ایک طرح سے کیچ 22 بن گئی ہے، اس طرح:

   اے: عمران خان کو جیل میں رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے باہر رہنے سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہورہا۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ عمران خان جیل میں اسیر ہے، اس لیے (اس کی پارٹی کے مسلسل احتجاج سے)ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہو رہا۔

  بی:  عمران خان باہر رہ کرمسلسل خبروں میں اِن تھا، اس لیے اسے جیل میں بند کیا گیا۔ مگراب وہ جیل میں بند ہے، اس لیے اس کی ہر عام خبر بھی خاص بن جاتی ہے اور وہ مسلسل خبروں میں اِن ہے۔

   دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی جیل سے رہائی بھی کیچ ٹوئنٹی ٹو بن چکی ہے۔

  عمران خان کے اندر ہونے سے ان کی پارٹی پر برا اثر پڑا ہے، کئی دھڑے اور گروپ بن چکے ہیں، سب ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہیں، ضروری ہے کہ خان باہر آئے تاکہ پارٹی متحدرہے۔

   دوسری طرف اگر عمران خان جیل سے رہا ہوا اور اس کے ہاتھ میں کوئی ٹھوس وعدہ، گارنٹی یا کوئی پرکشش اعلان نہ ہوا تب بھی کارکن اسے ڈیل سمجھ کر دلبرداشتہ ہوں گے اور یہ پارٹی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

  یہ کیچ ٹوئنٹی ٹو ہی ہے جو بہت کچھ طے نہیں ہونے دے رہی۔

   عمران خان کو یہ خطرہ ہے کہ وہ اگر یوں رہا ہو کر باہر گیا تو سیاسی مخالفین اس پر ڈیل لے کر آزاد ہونے کی پھبتی کسیں گے جبکہ اس کے پاس بھی اپنے کارکنوں کو مطمئن اور آسودہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔

دوسری طرف مقتدرحلقوں کو بھی یہ خدشہ ہے کہ عمران خان کو یوں رہا کر دیا گیا تو وہ کہیں باہر جا کر پھر سے احتجاجی موڈ میں نہ چلا جائے اور بہت سی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا کردے۔ اسے مستقل طور پر رکھا بھی نہیں جا سکتا کہ جتنے کیسز چل رہے ہیں، سب میں کوئی نہ کوئی کمزوری اور سقم ہیں اور یکے بعد دیگرے عمران خان ان سے ریلیف لے رہا ہے۔ یہ مقتدر قوتوں اور حکومت کے لیے بھی کیچ 22ہے۔

  اگلے روز ایک ویب شو میں بات کرتے ہوئے ساتھی تجزیہ کار نے یہ نکتہ اٹھایا کہ پاکستانی کی سیاسی صورتحال اس وقت کیچ ٹوئنٹی ٹو میں پھنس چکی ہے۔ اس بات پر جتنا غور کیا، اس کی صداقت کا قائل ہوتا گیا۔میرے حساب سے اصل رکاوٹ، مشکل اور پریشانی ہی یہ کیچ 22کی پوزیشن ہے۔ یہ لوز لوز گیم ہے، یعنی دونوں اطراف سے صفرہے،کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا۔

  عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے اصل چیلنج بھی یہ ہے کہ وہ اس سیچوئشن کو کس طرح بدلتے ہیں۔ اسے لوز لوز گیم کے بجائے وِن وِ ن گیم بنا دیتے ہیں۔ جس میں تحریک انصاف کو بھی فائدہ ہو اور مقتدر قوتیں بھی ثمریاب ہوں۔

  دوہزار اٹھارہ، انیس میں یہ صورتحال مسلم لیگ ن کے لیے تھی۔ وہ تب کیچ ٹوئنٹی ٹو میں پھنس چکے تھے۔ انہوں نے صبر سے کام لیا اور پھر میاں نواز شریف اور آصف زرداری نے نئی آپشنز دیکھیں، نئے راستے کھولے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دی اور پھر چیزیں اس ڈگر پر چلیں کہ اپریل 2022 میں وزیراعظم عمران خان رخصت ہوگئے۔

  آج عمران خان اور تحریک انصاف کو بھی نئی آپشنز سوچنا اور تجویز کرنا ہوں گی۔ وہ نئے اتحاد بنائیں، پیچھے ہٹ کر درمیان کا راستہ نکالیں یا کوئی ایسی پیش کش کریں کہ وِن وِ ِن صورتحال بن جائے۔

  ایک غلطی عمران خان سے یہ بھی ہوئی کہ انہوں نے سیاسی مذاکرات کو کمزوری، کمپرومائز اور راستہ نکالنے کو شکست اور ڈیل بنا دیا۔اپنے سیاسی مخالفین پر برسوں وہ یہ پھبتیاں کستے رہے۔ پیچھے ہٹنے اور جلاوطن ہونے کو وہ بھگوڑا بننا کہتے رہے۔ آج یہ سب ان کے اپنے لیے بھی مشکل پیدا کر چکا ہے۔

   عمران خان کی پارٹی کے کارکنوں، حامیوں کو یہ یقین ہے کہ کوئی بھی صاحب عزیمت، سٹینڈ لینے والا لیڈر ڈیل نہیں کرے گا۔دوسری طرف ان کے نزدیک کوئی بھی ڈیل کرنے والا لیڈر صاحب عزیمت اور سٹینڈ لینے والا نہیں۔ انصافین سمجھتے ہیں کہ ہر دلیر لیڈر جیل میں برسوں پڑا سٹرتا رہے گا مگر وہ کوئی دوسرا راستہ نہیں نکالے گا۔

   عمران خان کی جیل اور تحریک انصاف کا بحران تب تک چلتا رہے گا جب تک وہ اس کیچ 22کا کوئی حل نہیں نکالتے یا پھر کوئی دوسراان کے لیے آؤٹ آف باکس حل تجویز نہیں کر دیتا۔ تب تک چیزیں ایک دوسرے میں الجھی رہیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp