امریکی صدارتی انتخابات میں کیا کچھ، کب اور کیسے ہوتا ہے؟

جمعرات 31 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی صدارتی انتخابات میں کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں، دنیا کی سپر پاور میں صدارتی انتخابات آئندہ مہینے کے پہلے ہفتے میں  5 نومبر کو ہوں گے۔

امریکا میں انتخابات کسیے ہوتے ہیں، آئیے اس سلسلے میں کچھ دلچسب حقائق اور معلومات پر ایک نظر ڈالیں۔

امریکا میں صدارتی انتخاب کے علاوہ قومی، ریاستی اور مقامی سطح پر بھی الیکشن ہورہے ہیں، نائب صدر کاملا ہیریس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی امیدوار ہیں، صدارتی انتخابات کے علاوہ 5 نومبر کو امریکی ایوان نمائندگان کی تمام 435 سیٹوں پر الیکشن ہو گا جو کہ ہر 2  سال کے بعد منعقد ہوتا ہے کیونکہ اس کے ارکان 2 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔

امریکی مقننہ کے دوسرے ایوان، سینیٹ کی 100 میں سے 34 سیٹوں پر الیکشن بھی 5 نومبر کو ہوگا جبکہ 11 امریکی ریاستوں میں گورنرز کے لیے انتخابات بھی اسی روز ہوں گے۔

مقامی الیکشن اور ریفرنڈم

ریاستی اور مقامی عہدوں کے لیے ہزاروں مقابلے ہوں گے جن میں ریاستوں کے قانون سازوں، شہروں میں میئرز اور میونسپل سطح پر مختلف عہدوں کے لیے انتخابات ہوں گے، ساتھ ہی کئی ریاستوں میں ریفرنڈم بھی ہورہے ہیں جن میں ووٹروں سے اسقاط حمل، ٹیکس پالیسی اور گانجا کے استعمال جیسے مسائل کے بارے میں رائے لی جائے گی۔

ووٹنگ کا وقت کیا ہوگا؟

امریکا کی ہر ریاست میں انتخابات کے دن ووٹنگ مختلف اوقات میں ہوتی ہے، تمام 50 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں 5 نومبر کو لوگ خود پولنگ اسٹیشن جاکر ووٹ ڈال سکتے ہیں  جبکہ کئی ریاستیں ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں جس کے تحت ووٹرز مخصوص جگہوں پر جاکر ووٹ جمع کراتے ہیں، کئی ریاستیں انتخابات کے دن سے قبل بھی ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں، بعض جگہوں پر ستمبر کے مہینے میں ہی قبل از وقت ووٹنک کی اجازت ہوتی ہے۔

کن ریاستوں میں سخت مقابلہ ہوسکتا ہے؟

امریکا کی 7 ریاستیں ایسی ہیں جن میں صدارتی انتخابات میں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، ان ریاستوں میں پینسلوینیا، جارجیا، شمالی کیرولائنا، مشی گن، ایریزونا، وسکانسن اور نیواڈا شامل ہیں، مذکورہ ریاستوں کو ’سوئنگ اسٹیٹس‘، ’ٹاس اپ اسٹیٹس‘ اور ’پرپل اسٹیٹس‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ مختلف اوقات میں یہاں ووٹنگ کا رجحان بدل سکتا ہے۔ ان ریاستوں کا جامنی رنگ ڈیموکریٹک پارٹی کے نیلے اور ری پلیکن پارٹی کے سرخ رنگوں کے امتزاج سے بنتا ہے۔

کون ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے؟

امریکی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹرز کا امریکی شہری ہونا ضروری ہے، ووٹر کی کم از کم 18 سال بھی ہو، ووٹر کی ووٹ کاسٹ کرنے کی اہلیت مختلف ریاستوں میں مختلف ہے، ووٹرز کے لیے لازم ہے کہ وہ ریاست میں ایک مخصوص تاریخ سے پہلے رجسٹرڈ ہوں، بعض ریاستوں میں سزا یافتہ مجرموں اور ذہنی طور پر غیر فعال لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔

عام طور پر امریکا سے باہر رہنے والے امریکی ’ایبسنٹ بیلٹ‘ یعنی غیر حاضر ہوتے ہونے کی صورت میں مہیا کی گئی سہولت کی تحت ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

تاہم صدارتی انتخاب کے لیے ایسے افراد جو امریکا کے پورٹو ریکو، یو ایس ورجن آئی لینڈز، گوام، شمالی مریاناس جزیرے اور امریکی سموا کے علاقوں میں رہتے ہیں، ووٹ نہیں کاسٹ کرسکتے۔

الیکشن میں کامیابی کس کی ہوسکتی ہے؟

امریکا میں صدارتی انتخاب 2 نمایاں امیدواروں کے درمیان ہو گا جنہیں ان کی جماعتوں، ڈیموکریٹک اور ری پبلکنز نے اپنے اپنے امیدوار نامزد کررکھا ہے، عوامی رائے کے جائزوں کے مطابق کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔

صدر کون ہوگا؟فیصلہ الیکٹورل کالج کرے گا

امریکا میں جب لوگ ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ اپنے من پسند امیدوار کے لیے براہ راست ووٹ نہیں ڈال رہے ہوتے،تکنیکی لحاظ سے وہ ’الیکٹر‘ کو منتخب کرتے ہیں جوکہ الیکٹورل کالج کا حصہ ہوتے ہیں، یہ الیکٹر پھر صدر کو منتخب کرتے ہیں۔

الیکٹورل کالج ریاست سے ریاست تک کا نظام ہے جو نمائندگان پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں الیکٹرز کہتے ہیں، ان الیکٹرز کا انتخاب ہر ریاست میں الیکشن کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے،آئین سازوں کی خواہش ہے کہ قومی ووٹ کے بجائے صدر علاقائی انتخابات جیتیں تاکہ وہ ملک کے مختلف مفادات کی نمائندگی کرسکیں۔

دو کے علاوہ تمام ریاستوں کے سارے الیکٹر جیتنے والے امیدوار کے حق میں جاتے ہیں، چاہے جیت کا مارجن کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے، اس تعداد میں ایوان نمائندگان کے 435 ممبران، 100سینیٹرز اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے 3 ارکان شامل ہیں، کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی امیدوار کا 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔

کوئی امیدوار پاپولر ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بن سکتا ہے

امریکی صدارتی انتخابات کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ الیکٹورل کالج میں فتح امریکی صدر کا تعین کرتی ہے نہ کہ پاپولر ووٹ، امریکی نظام کے تحت یہ ممکن ہے کہ کوئی امیدوار پاپولر ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بن جائے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ امیدوار جن ریاستوں میں کامیابی حاصل کرے ان کا فرق بہت تھوڑا ہو جبکہ ان ریاستوں میں جن میں امیدوار کو ناکامی ہو وہاں ووٹوں کا فرق زیادہ ہو۔

ایسا اب تک 5 صدور کے الیکشن میں دیکھا گیا ہے جن میں جان کوینسی ایڈمز، ردرفورڈ بی ہیز، بینجیمن ہیریسن، جارج ڈبلیو بش اور 2016 کے الیکشن میں منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں۔

ووٹوں کی گنتی کیسے ہوتی ہے، نتائج کب آئیں گے؟

امریکا میں میں کوئی مرکزی الیکشن کمیٹی نہیں ہے، ہر ریاست ووٹوں کا شمار خود کرتی ہے،مقامی اور ریاستی اہلکار الیکشن کے نتائج حقیقی وقت میں فراہم کرتے ہیں۔

 خبر رساں ادارے ان نتائج کو شماریاتی تکنیک کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ممکنہ فاتح امیدوار کو پروجیکٹ کرتے ہیں، ایسا اس لیے ہے کیونکہ بہت سے ڈسٹرکٹس میں تمام ووٹوں کی گنتی میں کئی روز اور ہفتے بھی لگ سکتے ہیں، اس صورت میں نامکمل نتائج کو فاتح کا تعین کرنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔

تاہم، مقابلہ بہت سخت ہونے کی صورت میں خبر رساں ادارے فاتح کو پروجیکٹ کرنے سے پہلے حتمی نتائج کا انتظار کرتے ہیں، حتمی نتائج کا اعلان ووٹ ڈالنے کے وقت کے ختم ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔

الیکشن کے دن ذاتی موجودگی سے ہونے والی ووٹنگ 5 نومبر کی شام ختم ہو گی،ووٹوں کی گنتی اور ڈاک کے ذریعہ ووٹوں کی وصولی کے آخری وقت کا تعین ریاستوں کا اختیار ہے، اس صورت میں کچھ ریاستوں میں الیکشن کے نتائج کا علم ووٹنگ کے اگلے روز تک یا اس کے بھی بعد معلوم ہو گا۔

 سخت مقابلوں کے باعث خبر رساں اداروں کے لیے الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدوار کو پروجیکٹ کرنا دشوار ہو جاتا ہے، اس سال بھی 5 نومبر کی ووٹنگ کے بعد صدارتی دوڑ سمیت کئی مقابلوں کے نتائج کئی دن کے بعد آنے کی توقع ہے۔

انتخابی نتائج کی توثیق کیسے ہوگی؟

ووٹوں کی گنتی بعد ان کی مقامی اور ریاستی سطحوں پر توثیق کی جاتی ہے، اس کے بعد ریاستیں دستاویزی شکل میں جیتنے والے امیدوار کی ریاست کے الیکٹر کی شناخت کرتے ہیں،الیکٹر عام طور پر منتخب شدہ پارٹی کے لوگ ہوتے ہیں یا انہیں سیاسی اہلکاروں کی جانب سے مقرر کیا جاتا ہے۔

اگلے مرحلے میں الیکٹر دسمبر میں اپنی اپنی ریاستوں میں صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے جمع ہوتے ہیں،جنوری میں قائم ہونے والی نئی کانگریس الیکٹورل ووٹوں کی گنتی کرکے سرکاری طور پر کامیاب امیدوار کا اعلان کرتی ہے اور نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب 20 جنوری کو منعقد ہوتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp