آئین کی 50ویں برسی

بدھ 12 اپریل 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سارے ملک میں آئین پاکستان کی 50ویں سالگرہ قومی جوش و خروش سے منائی گئی۔ پارلیمنٹ میں خصوصی سیشن ہوا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمان سے خطاب کیا۔ ٹوئیٹر پر ٹریندز بنائے گئے۔ خبرناموں میں آئین کی گولڈن جوبلی کو اہم مقام دیا گیا۔ مریم اورنگزیب نے آئین کو نصاب میں شامل کرنے کا مشورہ دے دیا۔ سوشل میڈیا کے جغادری آئین کی حرمت پر اس دن قربان جا رہے تھے۔ اس سارے قومی جوش و خروش میں کسی کو یہ سوچنے کی فرصت نہیں رہی کہ جس آئین کی عمر 50 سال ہونے کا ہم جشن منا رہے ہیں اس آئین کے ساتھ ہم نے گزشتہ 50 برس میں کیا کیا ہے؟

ان 50 برسوں میں 20 سال ضیاالحق اور مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کی نظر ہوگئے۔ جنہوں نے اسی آئین کو پیروں تلے روندا، کبھی اسے ردی کا کاغذ قرار دیا اور کبھی اس میں من مانیاں کیں۔ ان جابروں نے کبھی خود کو سب سے بڑا آئین قرار دیا، کبھی اس میں ترامیم کی مدد سے خود کو اس قوم کا واحد نجات دہندہ تسلیم کروایا۔

ان 20 برسوں کو نکال دیں تو اس 50 برس کے عرصے میں 2 آرمی چیف جنرل کیانی اور جنرل باجوہ نے ایکسٹینشن جیسی کلفت قبول فرمائی۔ اس سارے ایکسٹینشن زدہ عرصے میں سب جانتے ہیں کہ حکومت جس کی بھی رہی حکم ایکسٹینشن پانے والوں کا ہی چلتا رہا۔ جمہوری لبادے میں ملبوس یہ ایکسٹینشن زدہ جنرل ہی حکمران اور فیصلہ کن قوت رہے۔

ان 12 سالوں کو بھی نکال دیں تو آئین کے پاس کُل 18 سال بچتے ہیں۔ جو آمروں کے زیر سایہ ہی بسر ہوئے۔ جمہوری قوتوں کو طاقتوروں نے آپس میں ایسا لڑوایا کہ آئین کا بھرکس نکل گیا۔ ان 50 برسوں میں ہم نے تواتر سے جمہوری قوتوں کو بدنام کیا۔ ملک کی تباہی کا سارا الزام سیاستدانوں کے سر کردیا۔

اس سارے عرصے میں کبھی جمہوریت آئین کی شق 58 (2) بی کی قتیل رہی اور جب اس سے نجات پائی تو 62 اور 63 کی زنجیر پاؤں میں پہنا دی گئی۔ اسی گولڈن جوبلی کے عرصے میں ہم نے ایک وزیرِاعظم کو پھانسی چڑھایا۔ ایک کو 30 سیکنڈ کی سزا سنا کر وزارتِ عظمی سے الگ کردیا۔ پہلی خاتون وزیرِاعظم گولی کا نشانہ بنیں اور اس سانحے کے نشانات مٹانے والے عظمت کے مینار پر چڑھے رہے۔ اس سارے عرصے میں کبھی کسی وزیرِاعظم کو جلاوطن کیا گیا، کسی کو اقامے نے ڈس لیا اور کسی کو امپورٹ کرکے ہمارے سروں پر بٹھا دیا گیا۔

اس سارے عرصے میں ایک بھی وزیرِاعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔ ملکی ترقی خواب رہی۔ صحت کی سہولیات ناپید ہوتی گئیں۔ تعلیم کا معیار گرتا رہا۔ بنیادی سہولتیں عوام کو میسر نہیں آسکیں۔ جو دلیل دیتے ہیں کہ ترقی کا سفر ایسے ہی شروع ہوتا ہے انہیں علم ہونا چاہیے کہ ہم نے ترقی معکوس کو سفر طے کیا۔ ایک سیکولر معاشرے سے خود کو ایک متشدد معاشرے میں تبدیل کرلیا۔ قومی سوچ کو علاقائی اور صوبائی سوچ میں بدل دیا۔ قائد کے 14 نکات صرف بچوں کو رٹائے ہیں سمجھائے نہیں۔ ان 50 برسوں میں ہم ایسا سماج بن گئے جہاں جنونیت کا اپنا آئین اور اپنا قانون ہے۔

جب یہ آئین منظور ہوا تو تمام تر اختلافات کے باوجود سب جماعتیں اس پر متفق تھیں۔ اب آئین موجود ہے مگر اختلافات ختم ہونے کو نہیں آرہے۔ بات چیت اور ڈائیلاگ کا فورم اب اسمبلی نہیں رہا۔ اسمبلی کا پلیٹ فارم مخالفین کو گالی دینے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اب ڈائیلاگ کے لیے شہباز شریف رات گئے خفیہ ملاقاتوں پر بھروسہ کرتے ہیں، عمران خان صدرِ مملکت کی معیت میں جنرل باجوہ سے ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں۔ عمران خان لوگوں کے نمائندوں کو ایک حکم پر استعفی دینے کا کہتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کے مرکز یعنی صوبائی اسمبلیوں کو ایک حکم پر تحلیل کروا دیتے ہیں۔

ان 50 برسوں میں ہم نے آئین سے کیا سبق سیکھنا تھا ہم نے تو اس آئین کو بہت سے سبق سکھائے ہیں۔ ہم نے سکھایا کہ عدالتیں، پارلیمان سے طاقتور ہیں، ہم نے سبق سکھایا کہ ڈکٹیٹروں کی قدم بوسی کرنے والے سرفراز ہوتے ہیں اور آئین کی حرمت پر مر جانے والے رسوا ہوتے ہیں۔ ہم نے سکھایا کہ آئین اور جمہوریت تمغہ نہیں تازیانہ ہے۔ جس جس نے آئین شکنی کی وہ کامیاب ہوا۔ جو آئین کی عزت کے لیے کھڑا رہا وہ عبرت کا نشان بنا۔

آئین کی حرمت کی جنگ اب شعبوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ جنرل باجوہ کہتے ہیں وہ تو آئین پر ایمان لائے تھے مگر جنرل فیض اس سے منکر تھے۔ کچھ سمجھتے ہیں نیوٹرل ہونا آئین کی پاسداری ہے اور کچھ سمجھتے ہیں کہ نیوٹرل تو۔۔۔

مجھے ان لوگوں کی خوش گمانی پر حیرت ہے جو آئین کی 50ویں سالگرہ کا جشن منارہے ہیں۔ اس جشن کا مذاق ہماری تاریک تاریخ اڑا رہی ہے۔ قاضی قائز عیسیٰ کے ساتھی جج اس کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں بنے نہایت باریکی سے بنے بنچ اس کی تضحیک کر رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا کے اسمبلی کے خالی ایوان اس کا تماشہ بنا رہے ہیں۔ نواز شریف کی اقامے پر نہ ختم ہونے والی سزا اور عمران خان کی مسلسل عدالتی طرف داری اس کا لطیفہ بنا رہی ہے۔ گزشتہ 50 برسوں میں جو کچھ اس آئین کے ساتھ کیا گیا اب ہم ہر لمحہ اس ہزیمت میں ایک قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔

آئین کی بے توقیری کے 50 سال پر جشن نہیں ماتم ہونا چاہیے تھا۔ شادیانے نہیں نوحے پڑھے جانے چاہیے تھے۔ اس نصف صدی میں جو کچھ آئین کی حرمت کے نام پر کیا گیا اس کے تکلیف دہ مناظر سے تاریخ کے صفحے سیاہ ہیں اور ایک المناک ماضی ہم پر ہنس رہا ہے۔

اس موقع پر آئین کی گولڈن جوبلی منانے والوں کو خبر ہو یہ آئین کی سالگرہ کا نہیں برسی کا موقع ہے۔ اس پر جشن نہیں ماتم ہونا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سرینگر: پولیس اسٹیشن میں خوفناک دھماکا، 9 اہلکار ہلاک، 27 زخمی

2 سال بعد سینچری اسکور کرکے بابر اعظم نے مخالفین کو کیا پیغام دیا؟

وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی کا حیات میڈیکل کمپلیکس پشاور کا ہنگامی دورہ

افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کن علاقوں میں موجود ہے؟

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نادرا کی جانب سے نکاح کے بعد ریکارڈ اپڈیٹ لازمی قرار دینے پر شہریوں کا ردعمل کیا ہے؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے