پی ٹی آئی اس بار احتجاج کی بجائے قوالی کرا لے

جمعہ 15 نومبر 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کپتان نے ایک بار پھر قوم کو احتجاج کی کال دی ہے۔ 26 ویں ترمیم کو منسوخ کرو، جمہوریت کو بحال کرو، عوام کا مینڈیٹ واپس کرو، سیاسی قیدیوں کو رہا کرو کے مطالبات کیے ہیں۔  اس بار بھی اب نہیں تو کب؟ میں نہیں تو کون؟، قسم کی تمہید باندھتے ہوئے قوم کو اٹھ کھڑے ہونے کو آواز لگائی ہے۔ علیمہ باجی نے کپتان کا پیغام لوگوں کو پہنچا دیا ہے۔

پی ٹی آئی نے ٹرمپ کی جیت سے کچھ زیادہ ہی امید باندھ لی ہے۔ کپتان خود بھی جب ٹرمپ سے مل کر پاکستان آیا تھا تو اس نے کہا تھا اسے لگتا ہے کہ وہ پھر ورلڈ کپ جیت کر آیا ہے۔ ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کہی تھی۔ اسے کپتان نے بہت بڑی کامیابی سمجھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ، کشنر، کپتان، زلفی اور زلمے

ٹرمپ کپتان ملاقات 22 جون 2019 کو ہوئی تھی۔ یہ ورلڈ کپ کپتان نے جیتا تھا۔ انڈیا نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ امریکا جانے سے پہلے 16 جون 2019 کو جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی سے تبدیل کر کے جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا گیا تھا۔ واقعات کی یہ ترتیب اور ٹائم لائین دلچسپ ہے۔

بشریٰ بی بی کی کرپشن کے ثبوت دکھانے پر جنرل عاصم منیر کو تبدیل کیا گیا تھا۔ کپتان خفا ہو گیا تھا اور یہ تبدیلی ہو گئی تھی۔ یہ کہانی پاکستانی میڈیا پر بہت چلی ہے۔ مولانا فضل الرحمان ایک انٹرویو میں بالکل الگ بات کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا یہ تھا امریکا دورے سے پہلے کشمیر کی وجہ سے جنرل عاصم منیر کو تبدیل کیا گیا تھا۔

 ڈونلڈ ٹرمپ نے مارکو روبیو اپنا سیکرٹری خارجہ نامزد کیا ہے۔ فلوریڈا سے منتخب سینیٹر بھارت دوست اور چین مخالف ہیں۔ یہ ہارڈ لائنر ہیں۔ امریکا انڈیا تعاون کے نام سے ایک بل یہ پیش کر چکے ہیں۔ یہ بل ہر قسم کا امریکی اسلحہ بھارت کو بغیر نگرانی اور رکاوٹ دینے کا کہتا ہے۔ مارکو روبیو کا ماننا ہے کہ اگر انڈیا میں ہوئی دہشتگردی میں کوئی پاکستان میں موجود تنظیم ملوث پائی جائے تو پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانی چاہییں۔

یہ بھی پڑھیں:آصف زرداری، اور بھی بھاری

پاکستان اب امریکا کی ترجیحی لسٹ میں شامل نہیں ہے  افغانستان سے امریکا جا چکا ہے۔ ہم سے ڈومور کے تقاضے نہیں ہیں، نہ امریکا کو ہم سے کوئی خاص کام ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمان والی بات ٹھیک ہے، تو پھر کپتان کو انعام دینا بنتا ہے۔ ٹرمپ کی کال آنی بنتی ہے۔ کپتان نے ملاقات کا ورلڈ کپ جیتا اور انڈیا نے کشمیر۔ ایک بار پھر اگر مولانا فضل الرحمان والی بات درست ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی کال آنے پر جنرل عاصم منیر مراقبے میں ہونگے؟ چھوڑیں ۔

امریکا کو ایک حوالے سے پاکستان کی سخت ضرورت پڑ سکتی ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات میں پاکستان اگر گرم جوشی کا لیول بھی کم کرے تو امریکیوں کا بھنگڑے مارنا بنتا ہے۔ پی ٹی آئی اس پوائنٹ پر ضرور کھیل سکتی ہے۔ کپتان کے ماضی میں دیے بیانات پی ٹی آئی کا اچھا کیس بناتے ہیں۔ انڈیا ویسے بھی چین کے ساتھ ایل اے سی پر چپیڑوں کا میچ کرنے کے بعد سے کافی سکون محسوس کر رہا ہے۔ اب تعلقات نارمل کر کے امریکا کو سرپرائز دے سکتا ہے۔ ایسے میں انڈیا کے کو چابی دینے اور چین کے حوالے سے پاکستان کا رول بنتا ہے اور پی ٹی آئی کا بھی۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کپتان کے لیے کچھ نہیں کرے گا

آپ کو یہ کتنی سیانی باتیں لگ رہی ہیں۔ مطلب جو بات آپ کو سمجھ آ رہی جو آپ کا یہ تبصرہ نگار کر رہا۔ وہ بس ہم دونوں کو پتا ہے، نہ آصف زرداری کو پتا نہ میاں نوازشریف کو ان کی سمجھ ہے، نہ وزارت خارجہ میں کوئی جانتا۔ اسحق ڈار اور چینی سفیر والی زبانی ہاتھا پائی پر ذرا دوبارہ غور کریں، یہ پٹواری اتنے بھی پٹواری نہیں ہیں۔

تحریر بہت ہی سیریس ہوتی جا رہی۔ طبیعت ہماری شونقن میلے والی ہے۔ ٹرمپ نے کپتان کو اپنا بہت اچھا دوست قرار دیا تھا۔ یہی ٹرمپ جن کو ایسی ویسی سناتا رہا ہے، یا جو اسے سناتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اس کا نائب صدر لگ گیا ہے۔ ایلون مسک اب اس کا بیسٹ فرینڈ ہے، تو ٹرمپ کی باتوں پر نہیں جانا۔ کپتان کے جوشیلے مداح تو کپتان کی باتوں پر بھی نہیں جاتے۔ انہوں نے تحقیق کرکے بتا دیا ہے کہ ٹرمپ سے زیادہ یا اتنی ہی دوستی کپتان کی ٹرمپ کی کسی بیگم کے ساتھ تھی یا ہے۔

اب یہ حوالدار بشیر کا کام ہے کہ وہ احتجاج روکنے کو کنٹینر لگانا پسند کرتا ہے یا ٹرمپ کو خود کال کرکے اس دوستی کے حوالے سے کان بھرتا ہے۔ پی ٹی آئی والے ہر طرح کے احتجاج کر کے دیکھ چکے ہیں۔ ایک بار ڈھول سپاہیوں کے لیے گائے نورجہاں کے گانے ٹرائی کر کے دیکھیں، احتجاج کی بجائے قوالی کرا لیں، شاید اس کا زیادہ اثر ہو جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp