فائنل کال یا فائنل فال؟ 

پیر 25 نومبر 2024
author image

ڈاکٹر شمع جونیجو

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان، جہاں آج اسٹاک ایکسچینج نناوے ہزار عبور کرکے  تاریخی طور پر ایک لاکھ کا انڈیکس عبور کرنے کو ہے۔ جہاں بیلاروس کا صدر ستر رکنی وفد کے ساتھ مختلف شعبوں سمیت سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کررہا ہے، جہاں تین مہینے بعد کرکٹ کا بڑا ٹورنامنٹ ہونے والا ہے، اُس ملک کو ایک بار پھر پی ٹی آئی کے احتجاج نے دنیا بھر میں پھر بریکنگ نیوز میں لا کھڑا کردیا ہے۔

اس وقت انٹرنیشنل میڈیا اور غیر ملکی سفارتی حلقوں میں صرف ایک بات چل رہی ہے کہ کیا عمران خان کی فائنل کال نے حکومت کو گھٹنوں کے بل آنے پر مجبور کردیا ہے؟

کل رات سے ہندوستان کے صحافیوں سمیت کئی غیر ملکی صحافیوں، سیاستدانوں اور سفارتکاروں نے مجھ سے رابطہ کیا ہوا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ ایک ہندوستانی صحافی نے مجھے جلتے ہوئے انٹرچینجوں کی ویڈیو بھیج کے پوچھا کہ ہم تو نہیں آرہے لیکن باقی ملک بھی یہاں کیسے کھیل سکتے ہیں؟

اور میں جواب میں اسٹیبلشمنٹ سمیت حکومتی وزراء اور اعلیٰ پولیس افسران سے پوچھتی ہوں کہ آپ یہ سب کیسے روک سکتے ہیں؟ تو مجھے بس کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔

گو کہ حقیقت یہ ہے کہ پورے سندھ، بلوچستان اور پنجاب سے پی ٹی آئی کے ایک سو لوگ بھی نہ سڑکوں پر نکلے نہ ہی اسلام آباد شہر سے کوئی باہر نکلا۔ عمران خان کی فائنل کال کو پاکستان کے باشعور طبقے نے مکمل نظر انداز کرکے فائنل فال بنا دیا۔ کل سے ڈی چوک سُنسان ہے، بلیو ایریا سمیت دیگر علاقوں میں کوئی پی ٹی آئی ورکر باہر نہیں نکلا۔ وفاقی وزیر عطا تارڑ بار بار دارالحکومت کی کنٹینر لگی خالی سڑکوں پر اپنی ویڈیو پوسٹ کرکے ثابت کرتے ہیں کہ صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بُخاری بھی کل سے پریس کانفرنسز کرکے ویڈیوز دکھا رہی ہیں کہ پنجاب میں حکومت نے ایک شر پسند کو بھی کامیاب ہونے نہیں دیا لیکن اٹک میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اس وقت پورا انٹرنیشنل میڈیا خیبر پختونخوا سے گنڈاپور کی سربراہی میں آتے ہوئے مسلح جتھے پولیس پر فائرنگ، سرکاری مشینری اور انٹرچینجز جلانے، اور کروڑوں مالیت کی انگوٹھی پہنے عمران خان کی تیسری بیوی بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کے کنٹینر سے اُکسانے والا خطاب دکھا رہا ہے۔

یورپ اور امریکا میں پی ٹی آئی کے ہر جگہ چند سو سپورٹرز کے مظاہرے سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن جہاں ہر ہفتے لاکھوں افراد فلسطینیوں کے لیے مظاہرہ کرتے ہیں اور کوئی ہیڈ لائن نہیں بنتی۔ اُسی لندن میں ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی رہتے ہیں وہاں صرف ایک ہزار کے لگ بھگ پی ٹی آئی سپورٹرز نے ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے گھنٹوں کھڑے ہوکے پوری دنیا کے میڈیا کو بڑی کامیابی سے یہ ہیڈ لائنز لگانے پر مجبور کردیا ہے کہ بلاشبہ عمران خان ہی پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر ہے اور حکومت اب گھٹنوں کے بل آ لگی ہے تو مجھ سے غیر ملکی دوست سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعی  ریاست گھٹنوں کے بل آن لگی ہے؟

جواب ہے: ابھی نہیں لیکن ایسا ہوسکتا ہے!

لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پلاننگ اور آپس میں کوآرڈینیشن کا فقدان ہے۔ اور اس حکومت نے سو پیاز سو جوتے، پھر سو پیاز اور سو جُوتے کھانے کے باوجود کوئی ایسی حکمت عملی نہیں اپنائی جس سے اس فتنے کا ٹنٹا ختم ہوسکے۔

سوال ہے کہ کیا پی ٹی آئی سے مذاکرات ہورہے ہیں؟

جواب ہے: ہاں!

حالانکہ محسن نقوی نے چند دن پہلے کہا تھا کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں ہورہے، لیکن مجھے خود پچھلے ہفتے  وفاقی وزراء نے بتایا تھا کہ پی ٹی آئی اور خیبر پختونخوا حکومت سے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ بات چیت ہورہی تھی اور  اُس میں ڈیڈ لاک عمران خان کی اس بنیادی شرط پر تھا کہ پہلے مجھے رہا کرو تو بات ہوگی۔ پھر نقوی صاحب نے یہ کیوں کہا کہ مذاکرات نہیں ہورہے؟

آج بھی بیرسٹر گوہر اور  بیرسٹر سیف کو پیغامات دے کے اڈیالہ جیل بھیجا گیا کہ گنڈاپور کے بلوائیوں کو روکیں تو مذاکرات شروع کرتے ہیں لیکن کپتان نے پھر وہی شرط رکھ دی کہ مجھے رہا کرو، فارم سینتالیس کی حکومت ختم کرو تو میں بات کروں گا، حالانکہ دونوں لیڈران نے عمران خان کو بتایا کہ پنجاب اور سندھ سے کوئی سپورٹر باہر نہیں نکلا لیکن عمران خان کو اُن طالبان اور خوارج پر یقین ہے جنہیں اُس نے انہی دنوں کے لیے افغانستان سے لاکے بسایا تھا۔

ریاست، ظاہر ہے، عمران خان کی شرائط نہیں مان سکتی، لیکن نہ ہی وہ پندرہ بیس ہزار کے مسلح جتھوں کو روک پارہی ہے تو دوسرا آپشن یہ چل رہا ہے کہ کیا گنڈاپور کو اسلام آباد سے باہر کسی مقام پر دھرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اب مذاکرات کا نیا دور اسی بات پر چل رہا ہے کہ ایک پاگل اور بپھرے ہوئے اونٹ کو کس کروٹ بٹھایا جائے۔

نون لیگ یہاں دبے لفظوں میں ملبہ محسن نقوی کے اوور کانفیڈنس پر ڈال رہی ہے اور کُھڈے لائین بیٹھے ہوئے آئی جی پی رینک کے افسران بھی آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کو کوسنے دے رہے ہیں کہ اس مجمع سے نمٹنے کے لیے کم از کم دس ہزار بیک اپ کے ساتھ بیس سے تیس ہزار جوانوں کی نفری درکار تھی جو کہ نہیں لائی جاسکی۔ ایک انسپکٹر جنرل رینک کے افسر نے سوال کیا کہ پنجاب میں دو لاکھ کی فورس ہے اور اسلام آباد پولیس میں صرف پانچ ہزار تو کیپیٹل پولیس کو بیس ہزار کی نفری کیوں نہیں دی گئی یا رینجرز اور فوج کو کیوں طلب نہیں کیا گیا۔ ان کنٹینرز کے سامنے اگر فوج کی گاڑیاں کھڑی ہوتیں تو کیا گنڈاپور کے لائے ہوئے بلوائی، جن میں اکثریت افغانیوں کی ہے، یوں حملہ کرتے؟ تو دو تین دن کے لیے ہی سہی، حکومت کی مدد کے لیے فوج کو کیوں نہیں بلایا گیا؟

علی امین گنڈاپور نے واضح طور پر کہا کہ جس طرح افغان پنجاب پر حملہ کرتے تھے ویسے ہی ہم کریں گے اور آج وہی ہو رہا ہے تو ریاست کے رسک اسیسمنٹ والے ایکسپرٹس کہاں تھے؟

اس وقت مکمل غیر مسلح پولیس کے پی کے اسلحہ بردار بلوائیوں سے لڑ رہی ہے، جو افغان طالبان کی طرح پولیس والوں کی گردنوں اور سروں پر سیدھی فائرنگ کررہے ہیں، پولیس کی گاڑیاں جلا رہے ہیں، جوانوں کو اغوا کرکے اُن کی وردیاں اُتار کے ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ کل سے ایک پولیس اہلکار کی جان چلی گئی ہے، ایک ایس پی اور ڈی ایس پی سمیت درجنوں پولیس والے زخمی ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی ریاست پی ٹی آئی کو دہشت گرد جماعت نہیں گردانتی، کیوں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ  ریاست پر بے انتہا غیر مُلکی پریشر ہے۔

مجھے ایک حکومتی شخصیت نے بتایا کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانا چاہ رہی تھی لیکن ایک مغربی ملک کی طرف سے باقاعدہ روکا گیا۔ اسی طرح یورپ، امریکا، اور برطانیہ کی طرف سے مسلسل دباؤ ہے۔ اسی حکومتی شخصیت نے کچھ دن پہلے بھی مجھ سے بات چیت میں الزام لگایا کہ برطانیہ کو اپنے پاس رکھنے کے لیے پاکستان سے ایک دوسرے الطاف حسین کی تلاش ہے جو کہ ایک کال پر ہڑتالیں کروا سکے۔ اور اس کام کے لئے عمران خان سے موزوں کوئی اور نہیں ہے جسے اگر برطانیہ بھیج دیا جائے تو دو صوبوں کی طرف سے علیحدگی کی تحریکیں بھی چلوا سکتا ہے، چین اور سعودیہ سمیت کئی ممالک سے پاکستان کی فارن پالیسی کا ستیاناس کرسکتا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی سبوتاژ کروا سکتا ہے۔

تو اس پر میرا سوال یہ تھا  کہ آپ یہ  شکایت حکومتی سطح پر برطانیہ کی حکومت سے کیوں نہیں کر سکتے جہاں اگست کے فسادات میں امن قائم رکھنے کے لیے ایک بارہ سالہ بچے کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔ اگر برطانیہ کا وزیر خارجہ اپنے بیس ایم پیز کو مطمئن کرنے کے لیے خط لکھ سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ہیومن رائٹس کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو پاکستان کا وزیر خارجہ اپنے پچیس ایم این ایز کو خط لکھ کے یہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ وہ بھی برطانیہ میں بارہ سال کے بچے کو جیل کی سزا ہونے کے بعد برطانیہ کے ہیومن رائٹس پر concerned ہے، یہ حکومتی شخصیات ہمارے ساتھ ہی دل کے پھپھولے کیوں پھوڑتی ہیں جب کہ خود ایک سوور ین اسٹیٹ ہونے کے باوجود بین الاقوامی طاقتوں بلکہ اُن کے صحافیوں تک سے خوفزدہ ہیں۔ پاکستانی چینلز پر پابندی ہے لیکن بی بی سی اس وقت مستقل گنڈاپور کے جلسے کی لائیو کوریج کررہا ہے۔ کیوں محسن نقوی سی این این، بی بی سی اور دوسرے اداروں کے صحافیوں کو بُلا کے زخمی پولیس والوں اور جلتے ہوئے انٹرچینج، یا اغوا کی گئی اور جلائی گئی پولیس کی گاڑیوں کی ویڈیوز دکھا کے یہ سوال نہیں پوچھتا کہ اُن کے اپنے مُلک میں ایسا ہو تو کیا وہ اسے انسانی حقوق کی جدوجہد اور جمہوریت پسندی کے جلوس کہیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں عمران خان کے سیف پیسیج کی بات طے ہو رہی ہے جسے کاؤنٹر کرنے کے لیے پیرنی نے سعودی عرب پر خودکش حملے والا بیان دے دیا تا کہ عمران خان کو سعودی عرب بھیجنے والا خیال کرش کیا جاسکے۔ تاہم بشریٰ بی بی کو یہ بھی پتہ ہے کہ اگر عمران خان برطانیہ یا کسی اور یورپی مُلک چلا گیا تو وہاں عمران خان کی رہائی کی زبردست مہم چلانے والی اُس کی سابقہ بیوی جمائما اور تینوں بچے بھی موجود ہیں، برطانیہ میں ویسے بھی جادو ٹونہ جُرم ہے تو میں نہیں سمجھتی کہ وہ کپتان کے ساتھ برطانیہ جیسے ملک میں جا کے ویسے پھل پھول سکے گی جیسے آج کل خیبر پختونخوا میں پوری صوبائی حکومت پر کنٹرول کیے ہوئے ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں پیرنی کا پلان پی ٹی آئی کو ٹیک اوور کرنا ہے جس میں عمران خان کو جیل میں رہنا ہوگا۔ وہ جس جنونی طریقے سے سامنے آکے علیمہ باجی سمیت باقیوں کو کُھڈے لائین لگا رہی ہے اُس کے بعد وہ گھر میں بیگم صاحبہ بن کے نہیں بیٹھے گی۔

پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیرنی کا لیڈران کے ساتھ ایسا ہی تذلیل بھرا لہجہ ہے جیسا اپنے ملازم لطیف کے ساتھ ہوتا تھا لیکن وہ صرف کپتان کے غصے کی وجہ سے چُپ ہیں، تاہم کپتان بھی ایک حد تک برداشت کرے گا، عمران خان بھی اپنے علاوہ کسی کو برداشت نہیں کرسکتا جبکہ پیرنی خود کو جمائما یا ریحام نہیں بننے دے گی، لہٰذا طاقت کی اس جنگ میں سب سے کمزور فریق عمران خان ہے اور یہی بات اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ دے رہی ہے کیونکہ مائنس عمران خان پیرنی سمیت ہر ایک کو مستقبل میں مینیج کیا جاسکتا ہے۔ جس کے لیے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو بھی ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا وجود ضروری ہے، جس میں عمران خان نہیں ہوگا۔ اسی لیے پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں بدترین کارکردگی کے باوجود اقتدار ملا ہے اور یہ اُنہی کے پاس ہی رہے گا۔

اسی لیے کل کی میڈیا اسٹوری کے مطابق پیرنی اور گنڈاپور میں شدید جھڑپ ہوئی اور علی امین گنڈاپور کے منع کرنے کے باوجود وہ نہ صرف زبردستی کنٹینر پر آئیں بلکہ پچھلی رات سے ابھی تک بشریٰ بی بی ہی کنٹینر سے جلوس کی قیادت کررہی ہے اور ہر تقریر میں یہ کہتی ہے کہ خان کو چھڑا کے واپس آئیں گے تو کیا وہ اڈیالہ جیل توڑنے آرہی ہے؟

جواب ہے: نہیں!

پیرنی شو ٹائم کرنے آرہی ہے اور وہ شو ٹائم دکھا رہی ہے۔ یہ احتجاج ابھی کچھ دن اور چلے گا۔

یہاں پر ریاست سے کئی سوال کیے جاسکتے ہیں کہ اتنے بڑے دعوؤں کے بعد اب آپ کیا کریں گے؟

عظمیٰ بخاری زچ ہو کے بار بار پریس کانفرنس تو کررہی ہیں لیکن اٹک میں جن پولیس والوں پر سیدھی فائرنگ ہورہی ہے اُن کو بچانے کے لیے کیا کریں گے؟ اُن کے قاتلوں کو کون پکڑے گا؟

محسن نقوی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ یہ احتجاج ختم ہوگا تو ہم دیکھیں گے کہ کتنا نقصان ہوا ہے، یہ احتجاج کب ختم ہوگا؟ آپ ایک بار ان کو جگہ دے کے بٹھا دیں پھر دیکھیں کہ یہ آس پاس کی دکانوں پر ویسی ہی لوٹ مار کریں گے جیسی کہ آج اٹک کے باغات میں کی گئی۔ اس صورتحال میں جب ہندوستان کے صحافی طنز کرکے مجھے واٹس ایپ کرتے ہیں کہ پاکستان چمپئینز ٹرافی کھیلنے کے لیے محفوظ ملک نہیں تو میں کیا جواب دوں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp